سمجھ تو جائیں مگر۔۔۔

اپریل 2010ءمیں موجودہ صدی میں ملکی تاریخ کی سب سے بڑی آئین سازی ہوئی،آئین میں اٹھارہویں ترمیم دراصل 1973ءمیں ملک کے آئین کی تشکیل کے بعد ہونے والی سب سے بڑی آئین سازی تھی جس کے زریعے سو سے زیادہ ترامیم آئین پاکستان میں کی گئیں۔ اس ترمیم کے تیاری کے لیے نو ماہ کا عرصہ لگا پارلیمان کی ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمائندگی تھی پارلیمنٹ ہاو¿س کا کمیٹی روم نمبر پانچ جہاں اس کمیٹی کے اجلاس ہوتے رہے اسے بعد ازاں کانسٹی ٹیوشن روم کا نام دےدیا گیا۔ اس کمیٹی نے آئین کی ایک ایک شق کو زیر غور لایا اور پھر ان میں جہاں ضروری سمجھا گیا ترامیم تیار کیں۔ آئین پاکستان میں ہونے والی چھبیس ترامیم میں یہ سب سے بڑی اور جامع ترمیم تھیں۔اٹھارہویں ترمیم میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار بھی طے کیا گیا جس کے لیے پارلیمانی کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن قائم کیا گیا تھا جس پر سپریم کورٹ کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا اور پھر انیسویں ترمیم کرنا پڑی جس میں ججز کے تقرر میں پارلیمانی کمیٹی کا اختیار لگ بھگ ختم ہوکر رہ گیا۔ یہ وہی عدلیہ تھی جسے وکلا اور سیاسی جماعتوں نے ایک بھرپور عوامی تحریک کے زریعے بحال کرایا تھا اور بعد میں جو ڈیشل ایکٹیو ازم کی اصطلاح بھی اسی دور میں سامنے آئی۔ اسی عدلیہ نے پہلے ایک وزیر اعظم کو مخص ایک منٹ کی سزا دے کر ایوان وزیر اعظم سے ہی نہیں سیاست سے پانچ سال کے لیے باہر کردیا اور پھر اگلے انتخابات میں منتخب وزیر اعظم کو بھی پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے اقامہ رکھنے پر وزرات عظمیٰ کے ساتھ سیاست سے بھی تاحیات باہر کردیا۔ یہ دونوں وزرائے اعظم اگر عدالتوں کے زریعے نکالے نہ جاتے یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنی مدت پوری کرنے والے وزرائے اعظم ہوسکتے تھے۔ اس کے بعد بھی عدلیہ سے کچھ ایسے فیصلے آتے رہے جنھوں نے ملک کے سیاسی مناظر نامے کو بدل کر رکھ دیا۔ آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریخ کے صدارتی ریفرنس میں ایک ایسا فیصلہ سامنے آیا جسے آئین کی از سر نو تحریر قرار دیا گیا اور پھر مخصوص نشستوں کے کیس میں بھی ایک ایسا فیصلہ آیا جس نے ان کو بھی حیرت میں مبتلا کردیا جن کے حق میں تھا ایک ایسا فیصلہ جس میں ان تمام کو تو کچھ نہ ملا جو کچھ لینے عدالت میں گئے تھے اور سب کچھ انھیں دے دیا گیا جو نہ یہ مانگ رہے تھے نہ عدالت گئے۔ اس کیس کے دوران ہی ایسی باتیں سامنے آنا شروع ہوگئیں کہ عدلیہ سے متعلق کوئی ترمیم آنے والی ہے اور اس عدالت کا فیصلہ اس ترمیم کا راستہ روک دے گا۔ یہ تاثر بعد میں اس وقت مضبوط ہوتا چلا گیا جب عدالت کی جانب سے اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے سخت وضاحتیں جاری ہونا شروع ہوگئیں اور وہ بھی اس وقت جب الیکشن کمیشن اس معاملے پر نئی حکومتی قانون سازی کے بعد کوئی فیصلہ کرنے کے قریب ہوتا اوپر سے یہ وضاحتیں چیف جسٹس کے علم میں لائے بغیر جاری کی جاتی رہیں جس پر چیف جسٹس صاحب کی جانب سے بھی وضاحتیں مانگی جاتی رہی اور اسی کھینچا تانی میں مخصوص نشستوں سے متعلق کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ 
ماضی قریب کے اپنے تلخ تجربات کے بعد سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق تھیں کہ عدلیہ میں اصلاحات لائی جانی چاہیں پارلیمان کو اپنی بالادستی کو منوانا چاہئے۔ اور پھر یہ ترامیم آگئیں سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے نے حکومت کی قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت ختم کردی تھی لیکن اگر وہ انھیں مل بھی جاتی تو سینیٹ میں اکثریت نہیں بن رہی تھی۔ یہاں اب ضرورت تھی سیاست کی اور یہ سیاست سبھی نہیں کی لیکن اس پر چھائے رہے مولانا فضل الرحمن ،مولانا صاحب ماضی قریب تک بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور ان کی جماعت کے براہ راست نشانے پر رہے لیکن یہاں مولانا صاحب نے تحریک انصاف کو بتایا کہ سیاست کیا ہوتی ہے مولانا نے سکھایا کہ سیاست بات چیت اور مذاکرات کا نام ہے کسی کو برا بھلا اور حقیر ثابت کرکے آپ اپنے دل اور کارکنوں کو تو خوش کرسکتے ہیں کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ اگر کچھ حاصل کرنا ہے تو بات چیت کرنا ہوگی اس عمل کا حصہ بن کر اپنا حق یا حصہ لینا ہوگا پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں محض درجن بھر نشستیں رکھنے والی جماعت کے سربراہ کا گھر جس طرح سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا لگ ایسا رہا تھا کہ شاید یہ ترمیم منظور ہی مولانا صاحب نے کروانا ہیں اور حقیقت بھی کچھ ایسی ہی تھی،مولانا نے اختلاف کے باوجود کسی ترمیم کو مسترد کرنے کی بجائے حکومت کی بات سنی پھر انھیں اپنی بات سنائی اور بہت سی باتیں منوائیں مولانا نے حکومت کا ساتھ دیا اور اپنی نئی نویلی اپوزیشن اتحادی تحریک انصاف کو بھی دور نہیں کیا۔ مولانا بھانپ گئے تھے کہ ترمیم منظور ہوجانی ہے اگر وہ ساتھ نہ بھی دیں کچھ منحرف اپوزیشن اراکین حکومت کے ساتھ چلے جائیں گے اور وہ ترمیم ہوگی بھی حکومت کی من مرضی کی ،تو انھوں نے دانشمندانہ کھیلتے ہوئے نہ صرف حکومت سے اس ترمیم میں کئی تبدیلیاں کروائیں بلکہ سود کے خاتمے کی ڈیڈ لائن سمیت اپنی کئی باتیں منوا بھی لیں۔ تحریک انصاف بھی یہ سب کرسکتی تھی لیکن وہ میں نہ مانوں، یہ فارم پینتالیس والے ،ارکان اغوا ہوگئے، اربوں کی آفرزہوگئیں جیسے الزامات ہی لگاتے رہ گئے اور مولانا میلا لوٹ گئے۔ ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف والے بھی اگر کبھی سوچیں تو مولانا کی سیاست کو سمجھیں اس سے سیکھیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سمجھ اس وقت ختم ہوجاتی ہے جب بیچ میں عمران خان آجاتے ہیں اب تک تو کچھ ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن