حکمرانوں نے آئین میں 26 ویں ترامیم کے لیے دن رات بڑی محنت کی ہے ان نازک لوگوں نے بھی راتیں جاگ کر گزاریں ہیں جن کو سوتے ہوئے جگانے کی کوئی جرا¿ت نہیں کر سکتا جس طرح پرانے زمانے میں رشتہ لینے کے لیے جوتیاں گھس جاتی تھیں اسی طرح اس ترمیم نے بڑے طواف کروائے ہیں لیکن بالآخر حکومتی اتحاد یہ معرکہ سر کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے ان میں اس ناممکن کو ممکن بنانے میں کئی ایسے کردار بھی شامل ہیں جن کے نہ تو نام سامنے آئے ہیں اور نہ ان کے کردار واضح ہیں لیکن حکومت پر انکے بہت زیادہ احسانات ہیں اس ناممکن کو ممکن بنانے میں مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو زرداری کا کردار بھی نمایاں ہے بلکہ کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو اس معرکے میں نمایاں کرکے ہیرو ثابت کرنا مقصود تھا کہ بلاول اب بچہ نہیں رہابڑے بڑے سیاستدانوں سے زیادہ زیرک سیاستدان ہے وہ اب اس قابل بن چ±کا ہے کہ ملک کی بھاگ دوڑ اس کے حوالے کی جا سکتی ہے۔
ویسے صدر مملکت آصف علی زرداری کی دلی خواہش بلاول کو دولہا بنتے ہوئے دیکھنے سے زیادہ وزیراعظم بنتے ہوئے دیکھنا ہے ذرا سوچیں ایسا ہو تو کیا ہو باپ صدر مملکت ہو اور بیٹا وزیر اعظم اگر ایک بھائی وزیراعظم اور دوسرا وزیر اعلی بن سکتا ہے باپ وزیراعظم اور بیٹا وزیر اعلی بن سکتا ہے چچا وزیراعظم اور بھتیجی وزیر اعلی بن سکتی ہے تو باپ صدر اور بیٹا وزیر اعظم کیوں نہیں بن سکتا بلکہ دو قدم آگے بڑھتے ہوئے والد محترم صدر ہوں بیٹا وزیر اعظم ہو اور بیٹی وزیر اعلی ہو تو کیسا ہو۔ بہر حال 26 ویں آئینی ترامیم منظور ہو چکیں اب اس کے فیوض وبرکات کا انتظار ہے جس تیزی کے ساتھ یہ ترامیم ایک ہی رات میں سینٹ اور قومی اسمبلی دونوں ایوانوں میں علحیدہ علحیدہ منظوری ہوئی ہیں اور دونوں اجلاسوں میں یہ بزنس ایجنڈے پر بھی نہیں تھا نہ عوام کو اعتماد میں لیا گیا نہ ایوانوں میں بحث کروائی گئی۔حکومت نے دو تہائی اکثریت کا بندو بست بہت دنوں پہلے کر لیا ہوا تھا پہلے حکومت چاہتی تھی کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کا فیصلہ ان کے حق میں کر دے تو کسی تردد کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور وہ باآسانی ترامیم کرالیں لیکن ایک تو سپریم کورٹ نے اس پر وضاحت دے کر اور تفصیلی فیصلہ جاری کرکے یہ راستہ بند کر دیا دوسرا خطرہ یہ تھا کہ ایسے میں یہ ترامیم عدالت میں چیلنج ہو سکتی تھیں اس لیے حکومت نے مخصوص نشستوں والے معاملے میں رسک نہیں لیا تاہم 4اکتوبر والا تحریک انصاف کا احتجاج بھی حکومت کو جلا بخش گیا حکومت نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی آڑ میں ممکنہ احتجاجوں کو روکنے کا بہانہ بنا کر بانی پی ٹی آئی سے رابطوں کی تمام لائنیں کاٹ دیں تحریک انصاف کی ساری قیادت بانی پی ٹی آئی کی ڈائریکشن پر فیصلے کرتی تھی۔ جب بانی پی ٹی آئی سے ہرقسم کے رابطے منقطع ہوگئے تو دستیاب لیڈر شپ گو مگو کا شکار ہوگئی اپنے طور پر فیصلے کرکے اس پر عملدرآمد کا رسک لینے کے لیے کوئی بھی لیڈر تیار نہ تھا سب کو خطرہ تھا کہ اگر کوئی فیصلہ لیا گیا اور بانی نے اسے غلط قرار دے دیا تو اس کی سیاست دفن ہو جائے گی اور جب بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت ملی اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا اب حکومت اپنے ارادوں میں کامیاب ہو چکی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ترامیم سے حکومت کتنی مضبوط ہوتی ہے اپوزیشن کے گرد کس قسم کے گھیرے تنگ ہوتے ہیں اور جس کی آڑ میں یہ ترامیم کی گئی ہیں یعنی پبلک اس کو ان ترامیم سے کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں بہرحال حکومت فوری طور پر اس کے فیوض وبرکات سے فیض یاب ہونا شروع ہو جائے گی سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کا تقرر اب حکومت اپنی خواہش کے مطابق کر سکے گی۔
آئینی بنچ کے نامزد ججز میں بھی حکومتی خواہشات نمایاں ہوں گی اور پھر آئینی مقدمات کے فیصلے بھی شاہکار ہوں گے یہ سارے اقدامات سے نظر آ رہا ہے کہ حکومت لمبی پلاننگ کر رہی ہے لیکن کیا زبردست مصرعہ ہے ،سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں، اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان ترامیم کے بعد ملک سیاسی استحکام کی طرف بڑھتا ہےیا مزید افراتفری کا شکار ہوتا ہے ،وکلاءان ترامیم پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں عدلیہ اس معاملے کو کس طرح لیتی ہے آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا اس سے کس کا کتنا بھلا ہوتا ہے ان ترامیم کو منظور کروانے کیلئے عددی برتری پوری کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے تحریک انصاف کے پانچ اراکین قومی اسمبلی کا مستقبل کیا ہوگا وہ ہماری اخلاقی روایات کا تعین کریگا شاہ محمود قریشی کے بھانجے ظہور قریشی ،اورنگزیب کچھی، مبارک زیب،عثمان علی اور چوہدری الیاس 2024ءکے انتخابات میں تحریک انصاف کے ووٹوں سے کامیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچے تھے لیکن حکومت انھیں آزاد تصور کرتی ہے یہ اب حکومت کی چھتر چھاو¿ں میں آ چکے ہیں تحریک انصاف انکی ڈس کوالیفکشن کی کوئی موو بھی کرتی ہے تو سپیکر ان کو تحفظ دیں گے لہذا یہ وفاداریاں تبدیل کرنے کے باوجود اب محفوظ ہاتھوں میں ہیں بلکہ یہ ترامیم والے معرکے کے ہیرو کہلائیں گے قانون ان کی وفاداریاں تبدیل کرنے پر ان کا بال بھی بہکا نہیں کر سکتا البتہ پبلک کا کچھ کہا نہیں جاسکتا وہ انکے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے بظاہر حکومت ان ترامیم کے ذریعے بہت سارے اختیارات اپنے گرد جمع کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے لیکن جب یہ اختیار موجودہ حکمرانوں کے مخالفین کے ہاتھ لگیں گے اس وقت کیا ہو گا اسکا اندازاہ لگائیں سوچیں اور موج اڑائیں۔