کئی ہفتوں کی بھاگ دوڑ اور سیاسی جوڑ توڑ کے بعد اتوار کو رات گئے پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ اور ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی نے 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی ہے۔ سوموار کی صبح صدر مملکت آصف علی زرداری نے اس کی توثیق کرتے ہوئے اس پر دستخط بھی کردیے۔ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے حصول کے لیے 64 ووٹ درکار تھے اور 26ویں ترمیم کے بل کے حق میں65 ووٹ پڑے جبکہ 4 نے اس کی مخالفت کی۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں دو اکثریت 224 ووٹوں سے بنتی ہے جبکہ ترمیم کے حق میں 225 ووٹ پڑے اور پاکستان تحریک انصاف اور سنی اتحاد کونسل کے 12 ارکان نے اس ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
ترمیم کے سینیٹ میں پیش کیے جانے سے قبل وفاقی کابینہ کے اہم اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے کی منظوری دی گئی۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیرِصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم پر دوبارہ تفصیلی بریفنگ دی۔ وفاقی کابینہ نے حکومتی اتحادی جماعتوں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی کا 26 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ منظور کر لیا جس کے بعدوزیر قانون نے آئینی ترامیم پر ووٹنگ کے لیے تحریک سینیٹ میں پیش کی جہاں اسے ملنے والے 65 ووٹوں میں حکومتی ووٹ 58، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے 2 اور جمعیت علماءاسلام (ف) کے 5 ووٹ شامل تھے۔ مخالفت کرنے والوں میں چار ووٹرز میں تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر، سینیٹر عون عباس بپی، سینیٹر حامد خان جبکہ مجلس وحدت المسلمین کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر راجہ ناصر عباس نے ووٹ دیا۔
ترمیم پیش ہونے سے پہلے وفاقی وزیر قانون نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو نے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ان تھک محنت کی، اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ترمیم پر اتفاق رائے ہوا اور 26 ویں آئینی ترمیم آج پارلیمنٹ میں پیش ہونے جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی پیکیج انصاف کی فوری فراہمی سے متعلق اہم قدم ہے، چیف جسٹس پاکستان کی تقرری اس پیکیج کا حصہ ہے اور چیف جسٹس کی مدت تین سال مقرر کی گئی ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ترمیم میں صوبوں میں آئینی بینچز کا مکینزم شامل کیا گیا ہے، جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے اس میں شقیں شامل ہیں، غیر مسلم ممبر کو بھی جوڈیشل کمیشن کا حصہ بنایا جائے گا جبکہ صوبائی جوڈیشل کمیشن کی شکل وہی رہے گی مگر جو نئی چیز شامل کی وہ پرفارمنس ایویلیو ایشن ہے۔ وفاقی وزیرقانون نے کہا کہ جے یو آئی نے آئینی ترامیم میں 5 تجاویز دی ہیں، جے یو آئی کی سود سے متعلق تجویز کو آئینی ترمیم میں شامل کیا گیا، سپریم کورٹ نے بھی سود کے خاتمے سے متعلق آبزرویشن دی تھی، یکم جنوری 2028 سے سودی نظام کا خاتمہ ہوجائے گا۔
دوسری طرف، پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے 26 ویں آئینی ترمیم کا حصہ نہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح یہ ترمیم ہو رہی ہے وہ میرے خیال میں جرم ہے۔ سینیٹ میں پی ٹی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر علی ظفر نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آئین پر اتفاق رائے نہیں ہوتا ہے تو پھر وہ آئین مر جاتا ہے۔ 1956ءاور 1962ءکے آئین پر بھی قوم کا اتفاق رائے نہیں تھا جو اپنی موت آپ مر گئے۔ ہمارے ساتھی گرفتاری کے خوف کی وجہ سے نہیں آئے۔ آئینی ترمیم کے لیے لوگوں کو زد و کوب کرکے ووٹ دینے کا عمل ہے، لوگوں کی رضا مندی شامل نہیں، یہ عمل آئین اور جمہوریت کی خلاف ورزی ہے۔
ایوان بالا میں 26ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کرنے کے بعد ایوان کو ترمیم کے خدوخال بتاتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ وہی مسودہ ہے جو خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے اتفاق رائے سے منظور کیا۔ ہائیکورٹ کے معاملات میں صوبوں کی نمائندگی بھی کی جائے گی۔ انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ 26ویں آئینی ترمیم میں چیف جسٹس کی مدت تین سال مقرر کی گئی ہے اور وزیراعظم نے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار پارلیمنٹ کو تفویض کر دیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی میں شفافیت لائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ججز کی نامزدگی اب جوڈیشل کمیشن کرے گا۔ جوڈیشل کمیشن کے پاس ججز کی کارکردگی جانچنے کا بھی اختیار ہوگا، جو ججز کام نہیں کر رہے یا جن کی کارکردگی مناسب نہیں ہے، ان کی رپورٹ کمیشن کو دی جائے گی۔ وفاقی وزیر قانون نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے درمیان میثاق جمہوریت سے یہ معاملہ شروع ہوا۔نواز شریف اور شہید بے نظیر بھٹو نے آئینی عدالت کے بارے میں بات کی تھی، اپوزیشن سے تجویز آئی کہ آئینی عدالت کی بجائے آئینی بینچز پر اتفاق کیا جائے جبکہ سوموٹو سے لے کر چیف جسٹس کے تقرر تک کے معاملات بھی ترمیم میں شامل کیے گئے ہیں۔
26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق ایک مہینے سے زائد عرصے تک سیاسی جماعتوں کے مابین جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری رہا اور اس دوران سب سے زیادہ اہمیت جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو ملی جنھیں منانے کے لیے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں نے پورا زور لگایا۔ اچھی بات یہ ہے کہ جے یو آئی نے ترامیم کے اس پیکیج میں سود کے خاتمے سے متعلق ترمیم بھی شامل کرائی لیکن ریاستِ مدینہ کے قیام کی دعویدار پی ٹی آئی نے اس ترمیم کی حمایت نہیں کی۔ ترامیم کا پیکیج کتنا متنازع تھا اور کتنا نہیں، یہ بحث اب اس مرحلے سے آگے بڑھنی چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو عوام نے ووٹ اس کام کے لیے نہیں دیے کہ وہ اپنی ساری توانائیاں ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے خرچ کریں۔ اب دونوں دھڑوں کو اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے جمہوریت کے استحکام کے لیے کوشش کرنی چاہیے تاکہ عوامی اور ملکی مسائل پر بھی توجہ دی جاسکے۔