عباس نامہ.... عباس ملک
bureauofficeisb@gmail.com
یادکرتا ہے زمانہ ان انسانوں کو
روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
سرائیکی دھرتی کے عظیم سپوت،سابق گورنر پنجاب اور پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم سید احمد محمود کی شخصیت اس لیے بھی قابل تکریم ہے کہ وہ سادات کے اس عظیم المرتبت گھرانے سے متعلق ہیں جن کی محبت عقیدت کے بغیر مسلمان کا ایمان مکمل نہیں ہوتا. عزت، عظمت، قیادت، سعادت، سخاوت اور شجاعت اہل سادات کا ورثہ ہے یہی وجہ ہے کہ مخدوم سید احمد محمود ایک باوقار باسعادت انسان بھی ہیں اور ایک پرعزم سیاستدان بھی ۔میں طویل عرصہ سے مخدوم صاحب کی سیاسی جدوجہد دیکھتا ا رہا ہوں اپ ایک متحرک ترین سیاستدان ہونے کے علاوہ میڈیا کے حلقوں میں بھی خاصی پہچان رکھتے ہیں اور اپنی جماعت کی بہترین نمائندگی کرتے ہیں اپ کا حسب و نسب بابرکت ہے اور اپ کی شخصیت کو ہمیشہ خاندانی روایات کے مطابق خوشگوار ہمدردانہ اور اخلاقیات سے بھرپور پایا ہے اپ پیپلز پارٹی پنجاب کی مضبوطی اور ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں میں ایک دو دفعہ مخدوم صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کر چکا ہوں اپ کے خانوادے کی ملک بھر میں خدمات کا ہر کوئی متعرف ہے۔ بحرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پیپلز پارٹی ' مخدوم سید احمدمحمود اور عوام دوستی ایک دوسرے کے ساتھ ریشمی ڈوری میں ایسے بندھے ہوئے ہیں جنہیں الگ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ خدمت وسیادت کا سفر نسل درنسل جاری رکھ کر مخدوم خانوادہ اس مقام رشک پر فا ئز ہے جہاں پہنچنے میں طویل مسافت وریاضت کی ضرورت ہوتی ہے !!کہہ سکتے ہیں کہ کل کی طرح آج بھی مخدوم خاندان شہر اور اہل شہر کے ساتھ جنوبی پنجاب بھر میں سیاست برائے خدمت کا معتبر حوالہ ہے۔ وہ چیئرمین ضلع کونسل رہے ،ایم این اے بنے ، وفاقی کابینہ کا حصہ بھی رہے تاہم ان کی شہرت گورنر پنجاب بننے کے بعد دو چند ہوئی۔ 2013ئ کے دوران بحثیت گورنر ان کے تعمیری اقدامات کا زمانہ معترف ہے۔ انہوں نے صوبے میں تعلیمی معیار کی بہتری اور جامعات کے وائس چانسلر کی تقرری کے لیے جو شفاف اور قابل قبول نظام وضع کیا ۔آج آزاد کشمیر اور بلتستان سمیت چاروں صوبوں میں اسی سسٹم کا فالو کیا جارہا ہے۔ مخدوم صاحب کی سماجی' عوامی اور سیاسی خدمات کے حوالہ سے 2022-23 میں نگران وزیراعظم کے لیے ان کے نام کی بھی بازگشت تھی( یہ الگ بات ہے کہ قرعہ انوار الحق کاکڑ کے نام نکلا )آج بھی پاکستان ، جنوبی پنجاب کی سیاست اور قومی تعمیروترقی میں مخدوم سید احمد محمود جیسی'' خالص شخصیات ''کی ضرورت ہے۔ مخدوم صاحب اس قبیلے سے متعلق ہیں جن کی زندگی اور سیاست پاکستان سے شروع اور پاکستان پر ختم ہو جاتی ہے۔
یادش بخیر… رواں سال کے آغاز میں جب لاہور میں مخدوم صاحب سے میری ملاقات ہوئی تومہان نوازی اور مہمان پروری میں انہیں ویسا ہی پایا جو شہرت اس گھرانے سے منسوب تھی۔ دھیمے پن اور سادہ طبیعت کے باعث انہوں نے ہر سوال کا جواب خندہ پیشانی سے دیا یہی وہ عجز اور انکساری ہے جس نے عہدے مرتبہ اور سرکاری کر وفر ( پروٹوکول) کو بھی مخدوم سید احمد محمود کی شخصیت پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ وہ کارکنوں سے ان کے مقام اور سطح پر آکر ملتے ہیں پھر یہ گمان نہیں رہتا کہ یہ شخص صدر مملکت آصف علی زرداری کے معتمد دوستوں میں شامل ہے؟ یہ بھی دہن نہیں مانتا کہ یہ'' بادشاہ گر ''کبھی پنجاب کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر متمکن بھی تھے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کو کئی چیلنجز اور ایشوز کا سامنا ہے دہشت گردی نے بھی سر اٹھایا ہوا ہے۔ صوبائی حکومتوں سے شکوں کی چنگاری بھی موجود ہے۔ان درپیش حالات میں سنجیدہ اور مقبول لیڈر شب کا کردار سامنے آنا ضروری ہے ۔پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ مجوزہ عدالتی اصلاحات سے امن وامان تک اور عوامی خدمت سے پارٹی مقبولیت تک جس طرح درست سمت میں درست قدم اٹھارہی ہے مستقبل قریب میں پاکستان اور اہل پاکستان کو اس کا بڑا ثمر ملنے والا ہے۔ ہماری خواہش اور دعا ہے کہ مخدوم سید احمد محمود جیسے جہاں داد سیاست دان صدرمملکت آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زداری کی قیادت میں تعمیر وترقی ' خوشحالی اور کامیابی کا سفر تیزی سے طے کریں!!مقام شکر ہے کہ عوام دوستی کے انمول جذبے مخدوم صاحب کے صاحب زادوں مخدوم سید مرتضی محمود' مخدوم سید مصطفی محمود اور مخدوم علی محمود میں بدرجہ اتم موجود ہیں اللہ کریم اس خاندان پر اپنی بے پناہ رحمتیں 'برکتیں 'سعادتیں اور سیادتیں نازل کرتا رہے ' آمین !!وفاقی دارلحکومت اسلام آبا د میں پاور گیم کوبہت اہمیت حاصل ہے اس شہر اقتدار کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ یہاں صبروقناعت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یہاں خودپرستی کے جذبات کو ہوا ملتی ہے یہاں انفرادی تشخص کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور یہاں افسر شاہی کے تصور کو بہت تقویت ملتی ہے اس شہر میں اپنے انفرادی تشخص کو برقرار رکھنا اپنے اختیارات کے دائرے تک محدود رہنا اور اپنے ضمیر کو ہر وقت بیدار رکھنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ مخدوم صاحب مئی 2013 سے 2018ئ تک پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن تھے انہوں نے عمران خان دورکے بعد بننے والی مخلوط حکومت کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے صنعت وتجارت کے طورپر حلف اٹھایا انہوں نے اکنامکس میں بیلچر آف آرٹس (آنرز) کی ڈگری حاصل کی ہے وہ 2018 کے عام انتخابات میں حلقہ 180-NA رحیم یار خان VI سے پی پی پی کے امیدوار کے طورپر پاکستان کی قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ ان کے صاحبزادے مخدوم سید مرتضی محمود 19 اپریل 1985 کوپیدا ہوئے انہوں نے 2013 کے عام انتخابات میں پی پی 295 رحیم یار خان سے پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا سید مرتضی محمود این اے 180 رحیم یار خان سے پیپلز پارٹی کے امیدوار کے طوپر کھڑے ہوئے اور 71 ہزار 988 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ مخدوم سید مرتضی محمود اگر دنیاوی نکتہ نظر سے اپنے گردووپیش کا جائزہ لیں تو انہیں اپنے آٰس پاس دولت کے ڈھیر نظر آئیں گے جنہیں وہ بڑی سہولت کے ساتھ اپنے دامن میں سمیٹ سکتے ہیں لیکن مخدوم سید مرتضی محمود اپنے والد کی طرح ایک ایسا مرد قلندر ہے جو دولت کے ان ڈھیروں کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا ان کے دفتر میں بڑے بڑے سرمایہ دار تو آسکتے ہیں لیکن دولت ان کے آفس کے کسی بھی رخنے سے اندر داخل نہیں ہوسکتی اسی عجز نے انہیں بلند پروازی دی ہوئی ہے۔