محمود بھٹی
پیرس کی ڈائری
میرے محبوب شنگھائی تعاون تنظیم تو کامیابی سے منعقد ہوگئی اور 26 ویں ترمیم کابڑا کانٹا بھی نکل گیا ،عدالتی نظام اب خودکار طریقے سے راستی پر آجائیگا،اب ضرورت اس مر کی ہے کہ معاشی حالات کو سدھارنے کی کوششیں تیز کی جائیں اس کے ساتھ ساتھ سیاحت کے فروغ پر بھی نظر کرم کی جائے، سیاحت اور مذہبی ٹورازم کے فروغ میں ہمارے بہت سے معاشی مسائل کا حل چھپا ہوا ہے،سیاحت کے فروغ میں ہمسائیہ ممالک سے خراب تعلقات اور راستوں کی خرابی سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں،
54 سال پہلے پاکستانی ہمسائیہ ممالک میں بآسانی چلے جاتے تھے ، کاروبار بھی کرلیتے تھے اور آزادانہ گھوما پھرا بھی کرتے تھے ،اسی طرح ہمسائیہ ممالک کے شہری بھی پاکستان میں بار بار آیا کرتے تھے، نہ دماغوں میں کوئی نفرت تھی نہ اعمال میں کوئی دشمنی جھلکتی تھی،پھر اچانک ہمارے ملک پر جہاد کے بادل مسلط کردیئے گئے ، جہادی تیزاب کی بارش نے ملکی تشخص اور ذہنیت کو جلا کر راکھ کردیا،ہماری سرحدیں 4 ممالک بھارت،چین، افغانستان اور ایران متصل ہیں ،سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے جینز میں کوئی مسئلہ ہے یا پھر ہماری تربیت کا،ہم اپنے جذبات کے اظہار میں اتنے غیر متوازن واقع ہوئے ہیں کہ بھارت کو ازلی دشمن کا درجہ دیکر اس کے ساتھ ہمیشہ کی جنگ چھیڑ رکھی ہے،
ترقی یافتہ ممالک کیطرح بھارتیوں اور پاکستانیوں کو ذاتی گاڑیوں پر سرحد پار آنا جانا نصیب ہی نہیں ہوا،دونوں ممالک کے شہری دو طرفہ سیاحت اور کاروبار کرنا چاہتے ہیں لیکن کبھی بھی انکے سیاسی حالات توازن میں آئے ہی نہیں، جب بھی کسی وزیر اعظم نے کشیدگی کم کرنیکی کوشش کی تو اسی حکومت ہی ختم کردی گئی، مذہبی ٹورازم کیلئے کرتار پوری راہداری سنہری چینل ثابت ہوسکتا ہے اس کیلئے دو طرفہ امن اور دوستی پر مبنی پالیسیاں اپنانے کی ضرورت ہے،
چین کی دوستی کوسمندرسے گہری اور ہمالیہ سے اونچی قرار دیکر اسے ہر قسم کی چھوٹ دے رکھی ہے، روس سے بچانے کیلئے بلا ضرورت افغانستان کے دفاع میں کئے گئے سارے اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے جتنی نیکیاں افغانیوں کیساتھ کیں اور کر رہے ہیں وہ ساری ساری کی ہمارے گلے پڑ گئی ہیں،آج افغانستان بھارت سے بڑا پاکستان کا دشمن بن چکا ہے،افغانی اتنے محسن کش ثابت ہوئے کہ پاکستان میں پلے بڑھے ، پاکستان کا کھایا ، یہاں تک کہ پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر سفر کرنیکے باوجود وہ اسکے شکر گزار نہیں بنے، افغانی جہاں جاتے ہیں برملا پاکستان کو دشمن قرار دیتے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ انکے پاکستان دشمن بیانیے کو بدلنے کیلئے سنجیدہ اور مستقل پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل کرنے کو یقینی بنانا پڑےگا،افغانستان کے پہاڑیوں سے ٹکرانے کی بجائےان کے دلوں کو جیتنے کیلئے سیاسی حکمت عملی کو اپنایا جانا چاہیے،ذرا سا سروے کرلیں تو پتہ چلے گا کہ آج بھی بہت سے پاکستانی کابل کی سیر کرنا چاہتے ہیں ، لاکھوں افغانی کاروبار اور سیاحت کیلئے پاکستان آنا چاہتا ہیں، پچاس سال سے اس پر سخت رکاوٹیں قائم ہیں، پاک افغان سرحد جہاد کی نظر ہو چکی ہے،پہلے یہاں سے مجاہدین کی آمدو رفت ہوا کرتی تھی لیکن اب خوارج آتے جاتے ہیں، بندوقیں شعلے اگلتی ہیں، بارود کی بو فضا میں رچی ہوئی ہے،باقی رہا ایران تو اس کے ساتھ بھی تعلقات مکمل طور پر دوستانہ نہیں ہیں، لاکھوں پاکستانی ہر سال زیارتوں کیلئے ایران تو پہنچ ہی جاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ وہاں سے کوئی سیاح پاکستان بھی آتے ہوں،
ایس سی او کانفرنس کی کا میابی ایک طرف رکھ دیں پہلے پاکستا ن کو ہمسائیہ ممالک کیلئے پسندیدہ قوم بنانے کا سٹیٹس دلوانے کیلئے کام کریں،
اپنی تمام تر توانائیاں ملک کو نارمل ریاست بنانے پر صرف کرنا ہونگی،پاک چین دوستی زندہ بادہے مگر کوئی یہ بتائے کہ کیا بذریعہ سڑک چین آنا جانا آسان ہے ؟ بہت کم سننے میں آتا ہے کہ پاکستانی سیاحت کی غرض سے بیوی بچوں سمیت چینی سرحد پار جاتا ہے،بذریعہ سڑک ایران جانا بھی کوئی آسان کام نہیں جان سولی پر لٹکی ہوتی ہے،اول تو دنیا ہمیں ویزا دیتے ہوئے ہزار بار سوچتی ہے تاہم پاکستانی بھی سیاحت کی غرض سے بیرون ملک کم ہی جاتے ہیں جبکہ غیر ملکی بھی یہاں سیاحت کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ وہ پاکستان کو غیر محفوظ ملک سمجھتے ہیں۔