گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ہر انسانیت کا درد رکھنے والے انسان کی آنکھ پرنم ہے .وہ مرد ہے یا عورت ہے۔ فلسطینیوں پر سفاکیت کو دیکھ کر وہ آنسو بہاتے چلے جا رہے ہیں اگر کسی کی آنکھوں میں آنسو نہیں ہے بلکہ اگر کسی کی آنکھوں میں کوئی دید نہیں ہے، بے دید ہو گئی ہیں آنکھیں تو وہ ہیں اقوام متحدہ کے ذمہ داروں کی، وہ ہے امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کی اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کے کرتا دھرتا ہیں۔اسلامی ممالک کے جو سربراہان ہیں ان کا یوں سمجھ لیجیے کہ غیرت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ کیونکہ ایک انسان کے قتل کو نبی اکرم ﷺکی طرف سے پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ فلسطین میں کتنے لوگوں کو شہید کر دیا گیا ہے، اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد 45ہزار سے اوپر جا چکی ہے۔ دو لاکھ سے زیادہ اپاہج اور ہمیشہ کے لیے زخمی ہونے کے بعد معذور ہو چکے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نہ صرف غزہ میں اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر جبر، ظلم ،استبداد کا ہرحربہ ،ہر ہتھکنڈا آزما رہا ہے بلکہ اس کی کارروائیاں ان علاقوں سے باہر بھی ہو رہی ہیں بلکہ اس نے لبنان پر حملہ کیا، یمن پر ،شام پر، عراق پر اورایران پر بھی اس کی طرف سے ایک مرتبہ تو کھل کر حملہ کیاگیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ تین مرتبہ اس نے ٹارگٹڈ اٹیک کیے ہیں۔ یہ کھل کر حملہ تو اسرائیل کی طرف سے اس وقت کیا گیا جب ایران نے اسرائیل پر اس وقت میزائل گرائے تھے جب اسرائیل نے شام کے ایرانی سفارت خانے پر بمباری کرکے دو ایرانی جرنیلوں کو ہلاک اور مقامی سولہ شامیوں کو مار ڈالا تھا۔ اس پر ایران کی طرف سے اسرائیل پر حملہ کیا گیا تو اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے ایران پر کئی میزائل اور راکٹ داغے تھے۔ اس سے پہلے تین مرتبہ اس کی طرف سے ایران پر ٹارگٹ حملے کیے گئے تھے جس میں ایک حملے میں جنرل سلیمانی شہید ہوئے تھے۔ دوسرے حملے میں اسماعیل ہنیہ شہید کر دیئے گئے تھے۔ یہ حماس کے سربراہ تھے اور اس سے چند دن پہلے ہی ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو بھی اسرائیل کی طرف سے ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کی آخری رسوم میں شرکت کے لیے دنیا بھر کے مندوبین ایران پہنچے ہوئے تھے۔ ان میں اسماعیل ہنیہ بھی شامل تھے۔ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل کی طرف سے وہاں پر ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ یہ تین ٹارگٹڈ حملے اسرائیل کی طرف سے ایران پر کیے گئے تھے۔اسرائیل کی طرف سے اب دھمکی دی گئی ہے کہ ہم ایک بار پھر ایران پر حملہ کریں گے اور یہ حملہ اس حملے کے جواب میں کیا جانا ہے جو ایران کی طرف سے اسرائیل پر دوسرا حملہ تھا۔ یہ حملہ اس وجہ سے کیا گیا کہ ایران کی سالمیت ،خودمختاری کو روندتے ہوئے اسرائیل نے ہنیہ کا ایران کی حدود میں گھس کر قتل کیا تھا۔ جس کا ایران نے اپنی طرف سے جواب دینے کی کوشش کی تھی۔ اسی دوران اسرائیل نے حسن نصراللہ کو بھی لبنان میں داخل ہو کر بمباری کرکے شہید کر دیا تھا۔ ایران کی طرف سے اسرائیل پر ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے جو حملہ کیا گیا اس کے بارے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہم نے حسن نصراللہ اورہنیہ کے قتل کا بدلہ لے لیا ہے۔لبنان ہی میں حسن نصراللہ کے جانشین اسحق سنوار کو بھی اسرائیل کی طرف سے اسی طرح کا حملہ کرکے شہید کر دیا گیا۔
یہاں پر مسلم امہ کی بے حسی پر تو بات کی جاتی ہے لیکن جو ممالک اسرائیل کے ساتھ آج مقابلے میں کھڑے ہیں، ان میں کمزور ترین فلسطین اور اتنا ہی کمزور لبنان ہے لیکن ایران ان کے مقابلے میں کافی زیادہ طاقتور ہے۔ اسرائیل کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کیا افرادی قوت سے کیا جا سکتا ہے۔ سار ے مسلم ممالک مل جائیں تو کیا اسرائیل کو شکست دے سکتے ہیں۔یہ بڑا اہم سوال ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ممکن نہیں ہے آپ کو اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے اس سے بہتر ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ تو کیا ایسی ٹیکنالوجی مسلم ممالک کے پاس ہے۔ ایران کے پاس ہو سکتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ایٹمی مواد ہو لیکن اس کے پاس سردست ایٹم بم نہیں ہے۔ اگر ایران کے پاس ایٹم بم ہوتا تو یقینی طور پر جس طرح کے وہاں پر لوگ بیٹھے ہوئے جس طرح ان کے ساتھ اسرائیل کی طرف سے جبر اور سفاکیت کی گئی ہے۔ایران کے ساتھ ہی نہیں بلکہ فلسطینیوں کے ساتھ اس کو تھوڑا آگے بڑھائیں تو پوری مسلم امہ کے ساتھ تو ایران اب تک کب کا وہ بم اسرائیل پر چلا چکا ہوتا، تو جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ایسا بم گرا کر انسانیت کی تباہی ہو جائے گی، بربادی ہو جائے گی۔ تو اس کا خیال سب سے پہلے امریکہ کو آنا چاہیے تھا جس نے ایک نہیں بلکہ جاپان کو زیر کرنے کے لیے دو چار روز کے وقفے کے بعد دو ایٹم بم چلا دیئے تھے۔ اور کہا گیا تھا کہ ایک اور ایٹم بم چلا دیا جائے گا تو جاپان نے اپنی بقا کے لیے جتنا اس کا ملک بچ گیا تھا اس کو بچانے کے لیے سلنڈر کر دیا لیکن جاپان کو یہ نہیں پتا تھا کہ اس وقت امریکہ کے پاس صرف دو ہی ایٹم بم تھے، تیسرا امریکہ کے پاس ایٹم بم نہیں تھا۔
بہرحال ہم بات کر رہے ہیں کہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری امہ کو اس طرح سے متحد ہونے کی ضرورت نہیں ،اس کا ایک دو ممالک ہی مقابلہ کر سکتے ہیں بشرطیکہ اسرائیل ہی کی طرح آپ کے پاس بھی ٹیکنالوجی ہو بلکہ اس سے بہتر ہو تو اسرائیل کو برباد اور تباہ کرکے رکھ دیا جا سکتا ہے۔ اور اب اس کی ضرورت بھی محسوس ہو رہی ہے آپ دیکھ لیجیے کہ کس طرح سے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر بربریت کی جا رہی ہے۔ فلسطینی اپنے گھروں میں تو کیا پناہ گزین کیمپوں میں، ہسپتالوں میں، سکولوں میں، عبادت گاہوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ان ٹھکانوں پر بھی اسرائیل کی طرف سے بم ،راکٹ اور میزائل برسائے جاتے ہیں۔ایک طرف تو اس کی طرف سے کھل کر حملے کیے جاتے ہیں ،مذکورہ ممالک پر، اس کے علاوہ ٹارگٹڈ حملے کیے جاتے ہیں۔ اورہم نے یہ بھی دیکھا کہ پیجر میں کس طرح سے دھماکے ہوئے اور فلسطینیوں کے پاس، حماس کے پاس جو پیجر موجود تھے ان سے تین ہزار سے زیادہ لوگ پیجر پھٹنے سے زخمی ہو گئے جب کہ تیس لوگ شہید ہوئے تھے۔
قابل غور امر یہ ہے کہ اسرائیل جس طرح سے ٹارگٹ کلنگ کرتا ہے۔ ہنیہ کا قتل ،حسن نصراللہ کو شہید کیا جانا ،ایرانی جنرل سلیمانی کو نشانہ بنانا اس کے ساتھ شام کے ایرانی سفارتخانے پر اس وقت حملہ کرنا جس وہاں پر دو ایرانی جرنیل موجود تھے۔اب اسحق سنوار پر حملہ، اسرائیل کی طرف سے ایسے حملے کیسے کیے جا سکتے ہیں۔ایسے پوائنٹ پر ٹارگٹ کرنا کیسے ممکن ہے۔ ایسا غداروں کی سہولت کاری کے بغیر قطعی طور پر نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں کو جب بھی کسی نے نقصان پہنچایا ہے غداروں نے پہنچایا ہے۔اسرائیل کی جنگ کا خاتمہ ہو سکتا تھا، اسرائیل کی بربریت کو روکا جا سکتا تھا۔ اسرائیل کو شکست اب بھی دی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے اگر مسلم امہ اپنی صفوں سے غداروں کا صفایا کر دے۔ حسن نصراللہ ،اسحق سنوار، اسماعیل ہنیہ ،جنرل سلیمانی اور ایسے لوگوں کی مخبری کہاں سے کی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ جہاں کہیں حملے ہوئے ان کے نزدیک قرب جوار سے یہ ساری مخبری کرکے اسرائیل کو اپنی بربریت اور جارحیت کا موقع فراہم کیا گیا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان ممالک ان کے سربراہان کو یہ خوف ہے کہ جس طرح سے ابراہیم رئیسی کو، اسماعیل ہنیہ کو، جنرل سلیمانی کو، اسحق سنوار کو،حسن نصراللہ کو ٹارگٹ کرکے مار دیا گیا۔ اگر یہ اسرائیل کے خلاف بات کریں گے تو کیا ان کو بھی اسی طرح سے مار دیا جائے گا۔ اسی خوف کی وجہ سے یہ متحد نہیں ہو رہے اور اسرائیل کے خلاف کسی کارروائی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہاں پر وہ پیغام آپ کو سامنے رکھنا ہے جو اسحق سنوار کی طرف سے اپنی موت سے چند روز قبل دیا گیا تھا انہوں نے کہا تھا کہ ”جو رات آپ کی قبر میں آنی ہے وہ قبر سے باہر نہیں آ سکتی اور جب تک آپ نے زندہ رہنا کوئی دنیا کی طاقت آپ کو قبر میں نہیں دھکیل سکتی۔“