تحریک انصاف کا کوئی ایک سینیٹر توڑے اور اسے ’’شو‘‘ کئے بغیر حکومت نے اتوار کی شام ایوان بالا سے آئین میں 26ویں ترمیم کا پیکیج منظور کروالیا تو میں تھکن سے چور ہواگھرلوٹ آیا۔ بستر پر لیٹنے کے باوجود مگر سونا نصیب نہ ہوا۔ سینٹ کے بعد حکومت منظور ہوئی ترمیم قومی اسمبلی میں لے گئی۔ اسے وہاں سے منظور کروانے میں کئی گھنٹے صرف ہوئے۔
اس کالم کے باقاعدہ قاری بخوبی جانتے ہیں کہ میں ذاتی طورپر جنرل مشرف کے ہاتھوں برطرف ہوئے افتخار چودھری کی سپریم کورٹ میں ’’عدلیہ آزادی کی تحریک‘‘ کی بدولت واپسی کے بعد افراتفری کے اس ماحول سے مستقل ناخوش رہا ہوں جو ’’ازخود نوٹسوں‘‘ کا بے دریغ استعمال وطن عزیز میں بھڑکاتا رہا۔ ثاقب نثار نے اس روایت کو شہنشاہوں سے مختص رعونت کے ساتھ استعمال کرنا شروع کردیا۔ ازخود نوٹسوں کے ذریعے قوم کے مسیحا بن جانے کے گماں میں مبتلا ہوئے جج ایک لمحے کوبھی اس حقیقت کا احساس نہ کرپائے کہ وہ عام پاکستانی کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے میں قطعاََناکام رہے ہیں۔ ان کی تمام تر پھرتیوں کے باوجود ’’مسنگ پرسنز‘‘ کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ صحافت بتدریج اس نوع کی ’’آزادی‘‘ سے بھی محروم ہوچکی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھ جیسے جھکی اذہان اشاروں اورکنایوں میں چند تلخ حقائق بیان کردیا کرتے تھے۔ ججوں کی تمام تر ’’مسیحائی‘‘ کا نشانہ فقط سیاستدان ہی رہے۔ حکومتیں ان کے خوف سے گھبراتی رہیں۔
عمران حکومت مگر ’’سیم پیج‘‘ پر ہونے کے سبب کافی عرصہ عدلیہ کی مداخلت سے محفوظ رہی۔ اس حکومت کے دوران سیاستدانوں کی کثیر تعداد احتساب بیورو کے عقوبت خانوں میں ذلیل ورسوا ہوتی رہی۔ کئی صحافیوں کو نوکریوں سے نکلوایا گیا۔ اعلیٰ ترین عدالت مگر اس دوران ازخود نوٹس کے استعمال سے گریز کرتی رہی۔ مذکورہ حکومت کے ریاست کے طاقتور ترین ادارے سے نمودار ہوئے سرپرست مگر جب اپنے سیم پیج والے ہمسائے سے اکتانا شروع ہوئے تو حالات میں تبدیلی کی گنجائش پیدا ہوئی۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی۔ ان کی حکومت مگر اس پر گنتی کو مؤخر کرتی رہی۔ بالآخر مذکورہ قرارداد قومی سلامتی کے منافی قرار دے کر قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دی تو اعلیٰ عدالت کو اپنے اختیارات یاد آئے۔ رات گئے سپریم کورٹ ’’ہنگامی حالات‘‘ میں ایک بنچ لگانے کو مجبور ہوا۔ روزانہ کی بنیاد پر ہوئی سماعتوں کے انجام پر تحریک عدم اعتمادپر گنتی کا حکم ہوا۔
دریں اثناء ریگولر اور سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے عمران خان یہ بیانیہ نہایت کامیابی سے فروغ دینے میں کامیاب رہے کہ ان کی حکومت امریکہ کے حکم پر ہٹائی گئی تھی۔ بائیڈن انتظامیہ ان کی ’’آزاد منش‘‘ پالیسیوں سے ناخوش تھی۔ ریاستی اداروں میں طاقتور عہدوں پر براجمان ’’میر جعفر وصادق‘‘ مگر منتخب وزیر اعظم کے تحفظ کے بجائے امریکہ کے ساتھ ’’حاضر جناب‘‘ والا رویہ اختیار کرنا شروع ہوگئے۔
میڈیا کے بھرپور استعمال کے علاوہ عمران خان نے شہر شہر جاکر روزانہ کی بنیاد پر عوامی اجتماعات سے خطاب کرناشروع کردیا۔ ان کی جارحانہ سیاست نے عدالتوں کو خوفزدہ بنادیا۔ ان کی جگہ آئی حکومت بھی مہنگائی کا عذاب نازل کرنے کی وجہ سے عوام میں نفرت کی آگ بھڑکانے لگی۔ عدالتوں نے اس تناظر میں آئین وقانون میں واضح انداز میں لکھے اصولوں سے روگردانی کرتے ہوئے ایسے فیصلے سنانا شروع کردئے جو ان کی دانست میں ’’عوام چاہتے تھے‘‘۔ عمر عطا بندیال اور ان کے ’’ہم خیال‘‘ ایسے فیصلوں کی بدولت ہی عمران مخالفین کو تحریک انصاف کے سہولت کارنظرآنا شروع ہوگئے۔
قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوئے تو حالات میں بہتری کی امید پیدا ہوئی۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے پیشرو ججوں کی متعارف کروائی بے شمار بری روایات سے ہٹ کر عدل فراہم کرنا چاہا۔ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں وہ مگر تحریک انصاف کے دشمن شمار ہونا شروع ہوگئے۔ عمران حکومت کے دوران انہیں بدعنوانی کے الزامات لگاکر عدالتوں کے روبرو اپنی صفائی دینے کے لئے کئی مہینوں تک گھسیٹا گیا تھا۔ عمران خان کے جذباتی حامی یہ سوچنے کو مجبور ہوئے کہ چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد وہ ’’بدلہ‘‘ چکارہے ہیں۔ 8فروری کے انتخاب سے قبل تحریک انصاف سے مبینہ طورپر ’’بلے کا نشان چھیننے والا فیصلہ‘‘ اس ضمن میں انتہائی اشتعال انگیز ثابت ہوا۔ اس کے باوجود انتخاب کے دن تحریک انصاف کے حامیوں نے اس جماعت کے تائید کردہ امیدواروں کی حمایت میں اپنے گھروں سے نکل کر حیران کن حد تک ریکارڈ بناتے ووٹ دئے۔ تحریک انصاف مگر قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت میں اْبھرنے کے باوجود حکومت سازی میں ناکام رہی۔ شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ آئے۔
8فروری کے انتخاب کی بدولت تحریک انصاف خود کو میسر سیاسی قوت کو ذہانت سے استعمال کرنے میں ناکام رہی۔ وہ مذکورہ انتخاب کی بدولت بالآخرشہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئی حکومت کو ’’فارم47‘‘ کی حکومت پکارتی رہی۔ اسے یہ گماں رہا کہ فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد منصور علی شاہ چیف جسٹس کا منصب سنبھالتے ہی ’’فارم45اور 47‘‘ کا تقابل کرتے ہوئے 8فروری کے انتخابات کالعدم قرار دینے کی راہ نکالیں گے۔ مذکورہ گماں میں مبتلا ہوئے عاشقان عمران یہ حقیقت فراموش کربیٹھے کہ اگر8فروری کے انتخابات کو ’’فارم 45اور فارم47‘‘ کے مابین تقابل کی بنیاد پر ’’دھاندلی زدہ‘‘ ٹھہراکر کالعدم ٹھہرادیا جائے تو اس کا حقیقی ذمہ دار ریاست کا طاقتور ادارہ ہی تصور کیا جائے گا۔ بدقسمتی سے منصور علی شاہ اوران کے ہم خیال جج صاحبان بھی اس ’’باریک نکتے‘‘ پر غور نہ کرپائے۔ تحریک انصاف کی ’’مقبولیت‘‘ انہیں وطن عزیز کے برسوں سے طے ہوئے ریاستی بندوبست کو للکارنے پر اْکسانے لگی۔
معاملہ حد سے بڑھا تو ’’ریاستی بندوبست‘‘ نے جوابی وار کا فیصلہ کیا۔ تحریک انصاف کی قیادت اور حامی اس سے نبردآزما ہونے کی ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام رہے اور شہباز حکومت نے بالآخر اپنے اتحادیوں اور سرپرستوں کی بھرپور معاونت سے قوم کی مسیحائی کے خواب دیکھتے منصف حضرات کو بے شمار قواعد وضوابط کی لگام ڈال دی ہے۔ پارلیمان ہمارے ریاستی بندوبست کا ہمیشہ سے کمزور ترین ادارہ رہا ہے۔ 1950کی دہائی سے ریاست کا طاقتور ترین ادارہ عدالت کی مدد سے اسے ذلیل ورسوا کرتا رہا ہے۔ عدلیہ نے مگر سہولت کاری کے بجائے ’’ازخود مسیحائی‘‘ کا فیصلہ کیا تو ریاست کا طاقتور ترین ادارہ پارلیمان کے ساتھ مل گیا۔ ریاست کا تیسرا ستون اس کی وجہ سے تنہا ہوکر کمزور ہوگیا ہے۔ آئین میں اتوار کے دن 26ویں ترمیم درحقیقت عدلیہ کی تنہائی اور کمزوری کا اعلان ہے۔ فی الوقت سیاستدان اس کے طفیل طاقت ور نظر آئیں گے مگر تابکہ؟ کاش تحریک انصاف نے دل بڑا کرتے ہوئے باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ماضی کی تلخیاں بھلاتے ہوئے نئے ریاستی بندوبست پر توجہ دی ہوتی۔
**