پیدائش سے پہلے وفات۔

کیا کوئی اپنے پیدا ہونے سے پہلے مر سکتا ہے؟۔ عالم جسم و روح میں تو یہ نہیں ہو سکتا۔ مرنے کیلئے پیدا ہونا شرط ہے، جو پیدا ہو گا، وہی مرے گا۔ ہاں، سیاست کی دنیا میں ممکن ہے کہ کوئی پیدا ہونے سے پہلے مر جائے۔ اپنی پیدائش سے ٹھیک پانچ روز پہلے، تازہ ترین ’’سانحہ‘‘ تو کل ہی ہوا۔ ’’مرشد‘‘ کا وہ انقلاب جس نے 25 اکتوبر کو جنم لینا تھا اور اگلے ایک آدھ مہینے میں جوبن پر آ کر مرشد کو زنداں سے اور قوم کو غلامی سے نجات دلانا تھی، وہ اپنی پیدائش سے ٹھیک پانچ روز پہلے، رات کے آخری پہر جب نئی تاریخ کیلنڈر پر نمودار ہو چکی تھی، وفات پا گیا۔ کیلنڈر کے حساب سے پانچ نہیں، چار روز پہلے لیکن عملاً پانچ دن ہی بنتے ہیں۔ 
مرشد نے ڈیڑھ دو ماہ پہلے انقلاب کی یہ تاریخ رکھی تھی اور پورے اعتماد و یقین سے رکھی تھی۔ اتنے اعتماد اور یقین کے ساتھ کہ حقیقی آزادی پارٹی نے اس پر ان گنت خوابناک محل تعمیر کر لئے تھے۔ مرشد دیوار کے اس پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے دیوار کے سائے میں جو ہو رہا ہوتا ہے، اس پر ان کی نظر پڑنے سے رہ جاتی ہے۔ چنانچہ جو کچھ ہوا، ان کے سامنے ہوا لیکن وہ بے خبر رہے اور پارلیمنٹ نے 26 ویں ترمیم کر کے خوابناک محلاّت کا پورا ’’کمپلیکس‘‘ ہی مسمار کر ڈالا، اس ترمیم کے نتیجے میں پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی ہو گئی اور جو بلند پایہ ہستیاں یہ کہا کرتی تھیں کہ ہم جو فرما دیں، وہی آئین ہے، ہم جو لکھ دیں، وہی قانون ہے، ان کے پر کٹ گئے اور زبانیں بے زبان ہو گئیں۔ 
بہرحال سانحہ ارتحال ہو کر رہا، خانوادہ حقیقی آزادی اور قبیلہ بے مہاراں کے ساتھ دلی تعزیت کی جاتی ہے، قبول فرمائیں۔ 
_____
وکلا کے بزرگ رہنما حامد خاں نے جو قبیلہ بے مہاراں میں ممتاز مقام بھی رکھتے ہیں، کچھ دن پہلے فرمایا تھا کہ 26 ویں ترمیم ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی ہو سکے گی۔ ہمارے جیتے جی یہ ترمیم ممکن نہیں۔ وغیرہ وغیرہ __ مطلب اور بھی بہت کچھ فرمایا تھا، کچھ گالم گلوچ بھی کی، تادم تحریر موجودہ قاضی القضاۃ کو مردود کا خطاب بھی عنایت فرمایا۔ خیر…
دروغ برگردن ایک سے زیادہ راوی، صبح دم کسی نے پوچھا حضرت، ترمیم تو ہو چکی، آپ کی لاش مبارک کہاں ہے تو موصوف نے فرمایا، لگتا ہے، پہلے کبھی زندہ لاش نہیں دیکھی۔ 
حقیقی آزادی کے ایک مجاہد نے البتہ اس معاملے کی قابل قبول تشریح کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دراصل لاشوں پر سے گزر کر ہی ترمیم ہو سکے گی والا وعدہ اس خیال یقین آمیز کی بنیاد پر کیا گیا تھا کہ حضرت مولانا کبھی نہیں مانیں گے۔ وہ حکومت کا ساتھ کبھی نہیں دیں گے چنانچہ ترمیم تو ہونی ہی نہیں ہے، کیوں نہ اس کا کریڈٹ لاشوں والا کشف جاری کر کے خود لے لیا جائے۔ 
لیکن مولانا منحرف ہو گئے، چنانچہ لاش کہاں ہے والا سوال عمر رسیدہ بزرگوار کے بجائے حضرت مولانا سے پوچھا جائے۔ 
اطلاع ہے کہ اب وکلا سے تحریک چلوانے کے منصوبے پر غور جاری ہے۔ وکلا کی تازہ دم کھیپ کی فراہمی کیلئے پختونخواہ کے افغان مہاجر کیمپوں سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔ ع: 
کرائے پر منگا لوں گا کوئی افغان سرحد سے (ارادہ خودکشی کا جب کیا میں نے)!
_____
ایک مضمون نظر سے گزرا جس میں لکھا تھا ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ہزاروں غیر مسلموں کو مسلمان کیا۔ 
ہزاروں نہیں، لاکھوں۔ اعداد و شمار یہی ہیں اور یہ سب کے سب لوگ تقابل ادیان کی ٹیکنیک سے مسلمان کئے گئے۔ فی زمانہ غیر مسلموں کو مسلمان کرنے کی یہ موثر ترین ترکیب ہے۔ فرانس میں نامور سکالر ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم نے بھی اسی کی مدد سے ہزاروں فرانسیسی شہری مسلمان کئے تھے۔ 
ڈاکٹر ذاکر نائیک کا حافظہ لاکھوں کروڑوں نہیں، اربوں میں ایک ہیں۔ بائبل ہو یا وید اور گرنتھ یا قرآن پاک اور حدیث مبارک، انہیں لاکھوں حوالے یاد ہیں اور جب وہ کسی مذہب کے تضادات، اسی مذہب کی کتابوں سے ثابت کرتے اور اسلامی عقائد کی یکسانی بیان کرتے ہیں تو نتیجہ پھر وہی نکلتا ہے جو نکلنا چاہیے۔ 
لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ اونٹ کسی روز پہاڑ کے نیچے آ ہی جاتا ہے۔ وہی ذاکر نائیک کے ساتھ ہوا۔ ان کی جو شامت آئی تو پاکستان کا رخ کیا۔ یہاں ان سے جو ہوا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں بار بار یہ وضاحت کرنا پڑی کہ وہ مسلمان ہیں۔ جو لاکھوں غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کر چکا، پاکستان آ کر اسے اپنے ’’مسلمان‘‘ ہونے کے لالے پڑ گئے۔ 
پاکستان کی کتنے فیصد آبادی مسلمان ہے؟۔ مردم شماری کے مطابق شاید 95 ،96 فیصد۔ لیکن یہ اعداد و شمار قابل اعتبار نہیں ہیں۔ حقیقی اعداد و شمار کیلئے آپ کو مختلف مسالک کے علمائے کرام سے رجوع کرنا پڑے گا۔ پھر ان سب علمائے متفرق بیانات کو ’’جمع‘‘ کر کے حاصل جمع نکالیں گے تو معلوم ہو گا، پاکستان میں سبھی ’’کافر‘‘ ہیں۔ یعنی غیر مسلم اکثریت کا ملک ہے۔ 
یقین نہیں آتا تو یوٹیوب کی علما مارکیٹ پر جائیں۔ یہ بتانے کی ضرورت تو بالکل نہیں ہے کہ دنیا بھر میں بلاسفمی کے جتنے واقعات ہوتے ہیں، ان سب کو ملا لیا جائے تو ان سب سے زیادہ واقعات تنہا پاکستان میں ہوتے ہیں۔ 
پاکستان میں یہ سوال بھی ہوا کہ ذاکر نائیک کو یہاں مدعو کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ ہمیں مغرب سے کسی سائنس دان کو بلانا چاہیے تھا۔ 
ہر سال دنیا بھر سے بہت سے ادیب، دانشور، شاعر، فلمی اداکار، گلوکار، فیشن ڈیزائنر آرٹسٹ وغیرہ پاکستان بلائے جاتے ہیں یہاں تک کہ علمائے کرام بھی۔ لیکن ’’مدعو کرنے کی ضرورت کیا تھی‘‘ والا سوال صرف ڈاکٹر ذاکر نائک کی آمد پر ہی کیا گیا۔ دلچسپ بات ہے۔ 
_____
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ ناقابل یقین لیکن تصدیق شدہ خبر یہ ہے کہ شام نے لبنان کی حزب اللہ سے منہ پھیر لیا ہے۔ حزب اللہ اور ایران نے روس کی مدد سے شام میں عوامی انقلاب کو کچل کر رکھ دیا۔ بشارالاسد کی حومت اب بھی قائم ہے تو حزب اللہ اور ایران کی وجہ سے لیکن اب اسی بشارالاسد نے نگاہیں بدل لیں۔ 
لبنان پر اسرائیلی حملے کے بعد حزب اللہ کی نصف قوّت ختم ہو گئی۔ اس کی افرادی نفرت کا ایک حصہ اب بھی میدان جنگ میں پامردی سے لڑ رہا ہے لیکن زیادہ تر نے شام میں پناہ لے لی۔ بشارالاسد نے ان کی آمد کو تو قبول کر لیا لیکن ان سے ہتھیار لے لئے۔ اور تو اور ، اسی ہفتے دمشق اور مضافات میں زب کے تمام اسلحہ گودام بحق سرکار ضبط کر لئے۔ حزب کے کماندار اعلیٰ حسن نصراللہ کے قتل کی بشار نے مذمت کرنے سے انکار کر دیا البتہ تعزیت ضرور کی۔ ممتاز عرب صحافی عبدالحمید توفیق کے مطابق شام جنگ کے میدان سے خود کو دور کر رہا ہے۔ وہ ترکی اور سعودی عرب کے قریب آ رہا ہے۔ شام کی حکومت ایران سے دوری اختیار کر رہی ہے۔ 
حزب اللہ اور ایران دونوں کمزور پڑ رہے ہیں اس لئے شام تبدیل ہو گیا، یہ مشرق وسطیٰ کے تمام مبصرین کی رائے ہے۔ بشار کا تعلق ’’نصیری‘‘ مذہب سے ہے، شیعہ اور سنی دونوں اسے غیر مسلم مانتے ہیں لیکن سیاسی مفادات اور ضروریات کی بنا پر ایران نے اس غیر مذہب کی مدد کی۔

ای پیپر دی نیشن