سیاسی غداری، سیاسی ضمیر فروشی اور سیاسی غلامی!!!!!!

میرا ضمیر جاگ گیا میں نے ضمیر کے مطابق فیصلہ کیا، میں نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا، میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ مزید اس بوجھ کے ساتھ سیاست کروں، میں ضمیر کا قیدی بن کر نہیں رہ سکتا، مجھے میرا ضمیر ملامت کرتا رہے گا، پارلیمنٹ میں موجود مختلف سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کی طرف سے ایسے بیانات سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ ضمیر والے معاملے پر تو ہم ایسے الفاظ سنتے رہے ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف نے دور جدید میں سیاسی غداری کی ایک نئی اصطلاح متعارف کروائی ہے۔ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر کہتے نے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والوں کو غدار قرار دے دیا۔ یہ ان کے نہیں بانی پی ٹی آئی کے ووٹ تھے، کمزوری دکھانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی۔جنہوں نے ووٹ دیا انہوں نے پارٹی اور بانی پی ٹی آئی سے غداری کی، حکومت بل کے لیے تمام رولز اور طریقہ کار کو خاطرمیں نہیں لائی، یہ جو کچھ ہوا غیر آئینی ہے، قوم سے امید کرتا ہوں وہ بھرپور آواز اٹھائیگی۔
یہ سیاسی ضمیر اور اب سیاسی غداری کے سرٹیفکیٹ ملک کو کہاں لے جائیں گے۔ ہمیں اس صورت حال سے نکلنا ہے کیا سیاسی قیادت اس اہم کام کے لیے تیار ہے۔ کیوں سیاسی جماعتوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ پارٹی قائد سے اختلاف کو غداری قرار دیا جائے، مفاد پرست کہا جائے یا پھر کسی کو بیضمیر کہا جائے یا پھر ان سے سے بڑھ کر سیاسی طور پر کسی کو غدار قرار دے دیا جائے۔ یہ بہت تکلیف دہ اور تشویش ناک صورت حال ہے۔ کیا یہ لازم ہے کہ انسانوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا جائے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں کوئی اختلاف رائے ہی نہیں کر سکتا، یہی لوگ آزادی اظہار رائے کو بنیادی حق قرار دیتے ہیں اور یہی لوگ پارٹی قائد سے اختلاف کرنے والوں کو بے ضمیر، احسان فراموش اور غدار قرار دیتے ہیں۔ آج چونکہ تحریک انصاف اپوزیشن میں ہے اس کے نزدیک ملک رہنے کے قابل نہیں، ملک میں جمہوریت دفن ہو چکی، ان کے نزدیک ملک میں آمریت قائم ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ دہائیوں سے پارٹی قائد ہی نہ بدلے، پارٹی قائد ہی صرف وزارت عظمی کا اہل و حقدار ہو، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ پارٹی قائد کو سیاہ سفید کا مالک بنا کر پیش کیا جائے۔ جن ممالک کے جمہوری نظام کی ہماری سیاسی قیادت مثالیں دیتی ہے ذرا ان کی سیاسی قیادت کو بھی دیکھ لیں، وزرائے اعظم یا صدور کو بھی دیکھ لیں۔ دیکھا جائے تو یہ سیاسی غلامی ہے، کیونکہ غلام ہی سر نہیں اٹھایا کرتے، غلاموں کو ہی بولنے کا کوئی حق نہیں ہوتا، غلاموں نے ہی ہر حال میں ہر حکم کی تعمیل کرنا ہوتی ہے۔ سیاسی قیادت یہ کیوں چاہتی ہے کہ وہ جو کہا جائے اراکین اسمبلی اور ووٹرز و سپورٹرز ہر حال میں تعمیل کریں۔ عجب تماشا ہے کہ وہی سیاسی قیادت وقت آنے پر کارکنان کے سوالات کو جمہوریت کا حسن قرار دیتی ہے لیکن وہ سوال کسی اور سے ہوں گے۔ کیا بدقسمتی ہے اس ملک کے کروڑوں لوگوں کی کہ وہ اس ابہام میں زندہ ہیں۔ جن کے آگے گڑھا ہے پیچھے کھائی، دریا سے بچتے ہیں تو سمندر نگلنے کے لیے تیار ہے، آندھی سے بچتے ہیں تو طوفانی بارشیں سب کچھ تباہ کر دیتی ہیں۔ یہی حال ہماری سیاسی قیادت نے اس ملک کے کروڑوں سیاسی ورکرز، کارکنان اور انسانوں کا کر دیا ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ بات اب سیاسی غداری تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت صرف چند سیاسی خاندانوں کے سامنے سر جھکانے کے نام کو کہا جاتا ہے اور اسد قیصر کے بیان اور سوچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ حکمران سیاسی ہوں یا غیر سیاسی سب کا مقصد ایک ہی ہے۔ حکمرانی کا انداز مختلف ہو سکتا ہے لیکن سوچ ایک ہی ہے۔ اب آئینی ترمیم کے نام پر جو تماشا لگا ہے کیا یہ ہماری سیاسی طور پر ناپختہ سوچ اور ہر حال میں حکومت سے اختلاف کا اظہار نہیں ہے یعنی اگر کوئی درجنوں بل ایک ہی دن میں منظور کرے تو وہ عین جمہوری ہے اور اگر کوئی جماعت آئینی ترمیم لائے تو اسے جمہوریت کا دشمن قرار دیا جائے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنا مذاق خود بنا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ جمہوریت کے نام پر آمریت کے کارخانے چلاتے ہیں۔ انہیں اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی اور قومی اسمبلی میں جانے سے پہلے سیاسی تربیت ہونی چاہیے یہ کوئی جمہوریت نہیں کہ جس کے پاس پیسہ ہے اسے سیاسی جماعت کا ٹکٹ ملے وہ الیکشن لڑے اور اسمبلی میں بیٹھ جائے، یا کوئی کسی سیاست دان کا بیٹا ہے بھتیجا ہے بھانجا ہے وہ صرف اسی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لے اور پھر سیاسی غلامی اختیار کر لے ۔ سیاسی قیادت قوم پر رحم کرتے ہوئے کم از کم یہ نام نہاد ضمیر، موقع پرست بنتے ہوئے غداری کے سرٹیفکیٹ اور وفاداری کے پروانے جاری کرنا بند کریں۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اسمبلی میں کھڑے ہو کر جس انداز میں ایوان کی توہین کرتے ہیں کیا ہم نے یہ جمہوریت کمائی ہے۔ کیا یہ جمہوری روئیے ہیں۔ کاش یہ قوم کو بتائیں کہ جمہوریت جمہور کی تربیت کا نام ہے، جمہوریت جمہور کی ذہنی آزادی اور احساس ذمہ داری کا نام ہے، جمہوریت جمہور کی مشکلات کو کم کرنے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا نام ہے۔ جمہوریت صرف شخصیات کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے کارکنان کے خون بہانے، موسموں کی سختیاں برداشت کرنے اور ڈنڈے کھانے کا نام نہیں ہے۔ قوم پر رحم کریں۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد کیا کوئی سیاسی ہلچل ہو گی۔ کیا ایک مرتبہ پھر حالات حاضرہ کے ٹاک شوز میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے، بے وفا، بے ضمیر یا سیاسی غدار کہنے کے علاوہ بھی کچھ سننے، سیکھنے اور دیکھنے کو ملے گا۔
آخر میں احمد ندیم قاسمی کا کلام
میرے کمرے کے دریچے کے مقابل بادل
تیرتے تیرتے رْکتے ہیں  ، سِرک جاتے ہیں
جیسے اطفال چمن زار کے چھتناروں میں
تتلیاں ڈھونڈنے آتے ہیں  ،بھٹک جاتے ہیں
جانے کِس جذبہء تخلیق کے بہلاوے ہیں
آسماں پر یہ عناصر کے ملائم گالے
کبھی بگلے، کبھی قازیں، کبھی پْرہول پہاڑ
کبھی اْجلے،کبھی دھْندلے، کبھی یکسر کالے
ابھی اِک سانپ سا گْزرا تھا، ابھی ایک ہرن
لو وہ بِلّور کا اِک قلعہ نمودار ہوا
اور یہ قلعہ جو بِکھرا تو کچھ ایسے ڈھب سے
دیکھتے دیکھتے زنجیرِ گراں بار ہوا
میرے کمرے کے دریچے کے مقابل اس وقت
اِک کڑی تک بھی نہیں، کچھ بھی نہیں،کوئی نہیں
آسماں اب نظر آتا ہے کچھ ایسا ویراں
جیسے یہ فصل مشیّت نے کبھی بوئی نہیں
میں کہاں ہوں مِری تنہائیو! میرے خوابو
میری مجبور اْمنگو! مِری پیاسی نظرو
یہ کوئی زیست کا لمحہ ہے کہ سکرات کا پْل
میرے ماحول کے کہرے میں ذرا جھانکو تو
میری سانسوں کی صدا، میری گھڑی کی ٹِک ٹِک
اِس کْچلتے ہوئے سناٹے سے کیا اْلجھیں گی
پِھر سے آباد ہوا جب یہ دریچے کا شگاف
اْلجھنیں مِرے خیالوں کی جبھی سْلجھیں گی

ای پیپر دی نیشن