مستقبل کے نئے چیف جسٹس کا تقررروبہ عمل

Oct 22, 2024

رانا فرحان اسلم

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستورمیں چھبیسویں ترمیم کا معرکہ سرہوگیا جمعیت علماء￿  اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اس معرکے کے سرخیل قرارپائے ملک میں جاری ہیجانی سیاسی کیفیت اور آئینی ترمیم سے متعلق شورشرابے کا اختتام ایوان بالا اور ایوان زیریں سے ترامیم کی منظوری اور صدرر مملکت آصف علی زرداری کے دستخط سے گزٹ نوٹیفیکیشن اجراء کے بعد ختم ہوگیا ترامیم کی منظوری سے قبل جمعیت علماء  اسلام مولانا فضل الرحمن نے اپنی سیاسی فہم وفراست اور بصیرت سے اپنی سیاسی ساکھ کیساتھ ساتھ ملکی میں جاری سیاسی افراتفری کا خاتمہ کیا چھبیسویں آئینی ترمیم کے معاملے میں اسلام آباد میں واقع جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا گھرسیاسی سرگرمیوں کا محور و مرکز بنا رہا حکومت،اتحادی و اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی مولانا فضل الرحمن کے گھر صبح شام حاضریاں ترمیم کے معاملے پراتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں جاری رہی جن میں کامیابی ہوئی چھبیسویں آئینی ترمیم پر صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد26ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا آئینی ترمیم پر دستخط کی تقریب میں پارلیمنٹرینز نے بھی شرکت کی آئینی ترمیم بل 2024 ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیاآئینی ترمیم بل 2024 ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا، گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد 26ویں آئینی ترمیم فوری طور پر نافذ العمل ہو گئی ترمیم کے بعد سب سے پہلے خصوصی کمیٹی کا قیام عمل میں لایاگیا آرٹیکل 175اے کی شق 3 کے تحت کمیٹی نئے چیف جسٹس کا تقرر عمل میں لائے گی ۔چیف جسٹس پاکستان آرٹیکل 175 اے کی ذیلی شق 3کے تحت 3سینئر ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے پارلیمانی کمیٹی 3 ججز میں سے ایک جج کا تقرر کرے گی خصوصی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس پاکستان کا تقرر کر کے نام وزیرِ اعظم کو ارسال کرے گی، وزیرِ اعظم چیف جسٹس کے تقرر کی ایڈوائس صدر کو بھجوائیں گے26ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس کی تقرری 3 دن قبل ہو گی، چیف جسٹس کی تقرری کے لیے نام بھیجنے کے لیے 35گھنٹوں کا وقت باقی ہے

 چیف جسٹس 22 اکتوبر رات 12بجے تک 3نام آئینی کمیٹی کو بھیجنے کے پابند ہیں ترمیم کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ کے 3سینئر ترین ججز میں سے ہوگا، نامزد جج کے انکار کی صورت میں بقیہ 3سینئر ججز میں سے کسی کو نامزد کیا جا سکے گا پارلیمانی کمیٹی کے 12ارکان میں قومی اسمبلی کے 8اور سینیٹ کے 4 ارکان ہوں گے، کمیٹی دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل نامزدگی کرے گی 26ویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا عمل شروع ہو گیا ہے ذرائع کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمانی لیڈرز سے کمیٹی ارکان کے نام مانگ لیے، کمیٹی کے لیے 8 ارکان قومی اسمبلی اور چار سینیٹ سے لیے جائیں گے۔کمیٹی ججز کے پینل میں سے چیف جسٹس پاکستان کا انتخاب عمل میں لائے گی چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے 3روز قبل 3سینیئر ججز کا پینل اسپیکر قومی اسمبلی کو ارسال کریں گے اور اسپیکر قومی اسمبلی چیف جسٹس کی تقرری کے لیے ججز کا پینل کمیٹی کو ارسال کریں گے۔ خصوصی کمیٹی میں پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی کا فارمولا بھی تیار کر لیا گیا جس کے مطابق 39 ارکان اسمبلی پر سیاسی جماعت کو خصوصی کمیٹی میں ایک نشست الاٹ ہوگی۔سیاسی جماعتوں کو سینیٹ میں 21 ممبران پر ایک نشست ملے گی مجوزہ فارمولے کے تحت مسلم لیگ ن کو خصوصی کمیٹی میں 4 نشستیں ملنے کا امکان ہے جس میں تین ارکان اسمبلی اور ایک سینیٹ سے ملے گی پیپلز پارٹی کو خصوصی کمیٹی میں 3 نشستیں ملنے کا امکان ہے جس میں قومی اسمبلی سے 2 اور سینیٹ سے ایک نشست ملے گی اسی طرح، پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کو بھی خصوصی کمیٹی میں نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ سنی اتحاد کونسل کو قومی اسمبلی سے 2 جبکہ پی ٹی آئی کو سینیٹ سے ایک رکن ملے گاایم کیو ایم اور جے یو آئی ف کو بھی خصوصی کمیٹی میں ایک ایک رکن ملنے کا امکان ہے۔ ایم کیو ایم کو قومی اسمبلی اور جے یو آئی کو سینیٹ سے ایک نشست خصوصی کمیٹی میں ملے گی البتہ جے یو آئی کو حکومت کے خصوصی کوٹے سے ایک نشست ملنے کا امکان ہے آرٹیکل 175اے کی شق 3 اے کی ذیلی شق 1 اور 2 کے تحت خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے موقع پرپارلیمنٹ ہاؤس کی پررونق راتیں اڑتالیس گھنٹے پارلیمنٹ ہاؤس میں چہل پہل رہی اراکین پارلیمنٹ کی آمدورفت کا سلسہ جاری رہا میاں نواز شریف بلاول بھٹو زرداری مولانا فضل الرحمن سمیت سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی جلوہ افروز رہی پارلیمنٹ ہاؤس میں سیاسی گہمی گہمی عروج پر رہی حکومتی اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین سیاسی پنجہ آزمائی بھی عروج پر رہی دوسری جانب ایوان بالا کا اہم اجلاس چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت منعقد ہوا اور چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری ہوئی ترمیم کی منظوری حکومتی اتحاد کے سینیٹرز نے ڈیسک بجا کر خوشی کا اظہار کیا اور ایک دوسرے کو مبارکبادیں پیش کیں۔آئینی ترمیم کے حق میں پیپلز پارٹی کے 24ارکان ،مسلم لیگ (ن)کے 19،جے یوآئی کے 5بی اے پی کے چار،ایم کیو ایم کے تین،اے این پی کے تین،بی این پی کے دو ،پی ایم ایل کیو کے ایک اور چار آزاد سینیٹرز بشمول انوارالحق کاکٹر،محسن نقوی،فیصل واوڈااور عبد القادر نے ووٹ دیااجلاس 5بجکر18منٹ پر اجلاس شروع ہوا وزیر قانون اعظم نذیر تارڑنے سینٹ اجلاس کے وقفہ سوالات کو ملتوی کرنے کی تحریک پیش کی جسے منظور کر لیا گیا بعد ازاں وزیر قانون نے آئینی ترمیم کا بل ہیش کیا تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ آئینی ترمیم کا بل ایجنڈے میں شامل نہیں تھا اور جب وزیر قانون بل کے خدوخال بیان کر رہے تھے تو اس وقت تک بل کے مسودے کی دستاویز اراکین کو نہیں دی گئی تھی بعد ازاں یہ اراکین میں تقسیم کی گئیں اس دوران مہمانوں کی گیلریز میں اراکین قومی اسمبلی سینٹرز بھی موجودتھے جبکہ پریس گیلری میں بھی تمام نشستیں پر تھیں26آئینی ترمیم کی 22شقوں کی مرحلہ وار منظوری لی گئی اور 65ارکان نے بل کی حمایت میں ووٹ دیا بعدازاں اجلاس منگل سہ پہر چار بجے تک ملتوی کردیا گیادوسری جانب قومی اسمبلی اجلاس میں بھی بل کی حمایت میں 225جبکہ مخالفت میں بارہ ووٹ دالے گئے۔

مزیدخبریں