افواہیں دم توڑ گئیں پارلیمان میں حکومت نے گرفت ثابت کردی

8فروری 2024 کے انتخابات کے دن سے 20ستمبر کی شب اور 21ستمبر 2024 کا علی الصبح کاوقت (26ویں آئنی ترمیم کی منظوری ) حکومت کیلئے کٹھن امتحان اور آزمائش سے کم نہیں تھا ۔ پورا ملک اور طاقتور حلقے انتخابات کی تاریخ سے کچھ روز قبل ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھے کہ کہیں امن وامان کا مسئلہ پیدا نہ ہوجائے، جب الیکشن کا مرحلہ خیر و عافیت سے گذرا تو پی ٹی آئی کے سیاسی لوگوں نے سوشل میڈیا پر مشہور کردیا کہ حکومت چند روز کی مہمان ہے جس سے یہ لگ رہا تھا کہ حکومت ابھی گئی یا صبح اسمبلیوں کے تحلیل کی نوید سنائی دے گی،مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا یہ افواہیں اس وقت دم توڑ گئیں جب حکومت نے آئین پاکستان میں 26 ویں آئینی ترمیم کو سینٹ اور قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے منظور کروالیا یوں حکومت کے چند روز ہ  مہمان ہونے کے دعویدارسیاسی لوگوں کو بڑے غیر محسوس طریقے سے شکست دی اور پارلیمان میں حکومت وقت نے اپنی پکڑ کو ثابت کردیا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ترمیم کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اس کے جائزے کے لئے لمبا مضمون درکار ہوگا، بات اس پر ہونی چاہیے کہ آئین کی ترمیم کی منظوری کے بعدپاکستان کی عدلیہ میں اصلاحات ہوسکیں گی یا نہیں ؟ترمیم کی منظوری کے بعدملک میں عدل و انصاف سے متعلق اصلاحات پر عمل درآمد کا اگلا چیلنج شروع ہو گیا ہے۔اس چیلنج کے لئے حکومت کو وقت کے ساتھ ساتھ بڑے موزوںاور قابل لوگوں کی ضرورت رہے گی جس پر یقیناً حکومت نے کوئی منصوبہ بندی ضرور کررکھی ہوگی اتنا بڑا فیصلہ مستقبل کی پلاننگ کے بغیر کیا نہیںجاسکتااگر ایسا نہ ہوتا تو پھر سوالات بھی ضرور ہوں گے ۔

1973 کا آئین اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ آئین تھا جس کا سہرا اگر ذوالفقار علی بھٹو شہید کو نہ دیا جائے تو یہ زیادتی کے مترادف ہوگا، جس میں تمام سیاسی مخالفین جس میں قد آوار سیاسی شخصیات مولانا شاہ احمد نورانی ،چودھری ظہور الہی ،مولانا مفتی محمود ،پروفیسر غفوراحمد،عطاء اللہ مینگل ،نوابزادہ نصراللہ،ولی خان،مولانا غلام غوث ہزاروی نے متفقہ طور پراپنے دستخطوں سے اس ملک کو آئین دیا تھا ۔ 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے آئین پاکستان میں 25 بار ترامیم ہوئی ہیں،ذوالفقار علی بھٹو کے دور شہید کے دور میں 7 ترامیم ،وزیراعظم محمد خاں جونیجو کے دور میں 3 ، نواز شریف کے دور میں 8، ظفراللہ جمالی کے دَور میں 1،یوسف رضا گیلانی کے دور میں 3 ،وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اوروزیر اعظم عمران خان کے دور میں 2، 2 آئینی ترامیم ہوئیں ہیں۔اب تک کی آئینی ترامیم میں پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کی ترمیم،احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے،احتیاطی حراست کو بڑھانے کی مدت ،جو ریاست پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو،پارلیمان میں اقلیتوں کیلئے مختص نشستیںاور پارلیمنٹ میں اضافی سیٹوں،صوبائی عدالت عالیہ کا اختیارِ سماعت وسیع،ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی مدت بالترتیب 62 اور 65 سال، وزیر اعظم کا اختیارکہ وہ کسی بھی وقت پاکستان کے عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل ، پارلیمانی نظام سے نیم صدارتی نظام میں تبدیل ، شریعہ لاء کو ملک کا اعلیٰ قانون کا درجہ، پارلیمنٹ کے اجلاس کا دورانیہ مقرر، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کیلئے مخصوص نشستیںسنگ،ین جرائم کے تیز ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتیں قائم، صدر کی قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور وزیر اعظم کو ہٹانے کا اختیارواپس،ارکان پارلیمنٹ میں کوئی نقص پائے جانے پر عہدوں سے ہٹانے کا قانون ،شریعہ لاء کو لاگو کرنے کے بل کو پاس نہ کیا جانا،کوٹہ سسٹم کی مدت 20 سے بڑھا کر 40 سال، صدر کے اختیارات میں اضافہ ،صوبہ سرحد کا نام تبدیل، صدر کا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ختم ، اسلام آباد ہائی کورٹ قائم ، صاف شفاف انتخابات کیلئے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تبدیل ، سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ملٹری کورٹس متعارف ،الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو دیئے جانا،بیورو کریٹس اور ٹیکنو کریٹس بھی ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان بننے،،قومی اسمبلی نے 21 ویں ترمیم میں دو سال کیلئے ملٹری کورٹس قائم ،وفاقی اکائیوں کے مابین نشستوں کے تعین کا اعادہ او ر انتخابی حلقوں کی تشکیل، فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیاجیسی آئینی ترامیم شامل ہیں ۔
یہی کہا جاتا ہے کہ 2006 میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان ’’میثاق جمہوریت ‘‘جیسے معاہدے نے پاکستان کی جمہوری سمت کا تعین کیا تھا جس پر پاکستان کی تقریبا  سبھی سیاسی جماعتیں متفق تھی جس میں جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے مل کر چلنے اور جمہوریت کو پٹری سے نہ اترنے کا عہدوپیمان بھی کیا گیا ،مگر اس کے بعد اعلی عدلیہ کی طرف سے منتخب وزیراعظم کوگھر بجھوادیا گیا جس میں میاںنواز شریف اور یوسف رضا گیلانی شامل تھے جس سے سیاسی جماعتوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑی ،اس کے ساتھ اعلی عدلیہ کی جانب سے ’’از خود نوٹس‘‘کے بے شمار کیسز سامنے آئے جس کے فیصلوں پر سیاسی جماعتوں،سول سوسائٹی اور دوسرے حلقوںمیں بھی زیر بحث رہے اور مختلف فورمز پر ہدف تنقید بنے رہے جس کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا کہ عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے جس کے لئے حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم پیش کی ،اس ترمیم کی منظوری سے پہلے تک دو ایسی شخصیات تھی جن کے کردار کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ پذیرائی بھی ملی جس میں جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نمایاں تھے ۔ 26ویں آئینی ترمیم پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ جب مذاکرات کے دور شروع ہوئے تو بلاول بھٹو کو ہدف تنقید بھی بنایا گیا ،مگر اس ترمیم کی منظوری کے وقت اور بعد میں مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک سیاست دان نے بھی بلاول بھٹو کی تعریف کی بلکہ وزیراعظم شہباز شریف سمیت حکومتی اٹھادی داد دئے بغیر نہ رہ سکے ۔جس کے بعد سیاسی حریفوں کو بھی کہنا پڑا کہ بلاول بھٹو میں اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو شہید کی سیاسی بصیرت،اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹوجیسی لگن،اپنے والد محترم آصف علی زرداری کی فہم و فراست کی جھلک نظر آئی ۔ایسا بھی لگا کہ بلاول بھٹو نے اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے میثاق جمہوریت کے سفر کو مکمل کیا اور ایک جمہوری پاکستان کی بنیاد رکھنے میں اپنا مکمل کردار ادا کیا ۔ کم سیاسی تجربہ کے پیمانے پر تولنے والوں نے بھی بلاول بھٹو کوہدف تنقید نہ بنا سکے ،اس ترمیم کی منظوری کے مرحلے کو کامیاب بنانے پربلاول بھٹو کا سیاسی قد مزید بلند ہوا اور ان کی تقریر میں اپنی والدہ کی وہ ساری خوبیاں نظر آئیں جو انہیں میراث میں ملی ہیں ۔بلاول بھٹو کی اسمبلی میں پچاس منٹ کی تقریر کے الفاظ ملک کے سنہری مستقبل کی خوشخبری کے مترادف ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت، اتحادی، اپوزیشن میں جتنا اتفاق رائے حاصل ہوسکتا تھا وہ کیا، اپوزیشن بے شک ووٹ نہ دے، یہ ان کا حق ہے۔آئینی ترمیم میں ن لیگ کے سب سے کم، پی پی، جے یو آئی کے زیادہ نکات ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم انقلابی ریفارمز تھے، یہ بھی تاریخی ریفارم ہیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ عدلیہ کی تاریخ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، جنرل پرویز مشرف کی مارشل لاء حکومت کو توثیق عدالت نے دی، یہ ہے آمرانہ دور میں آئین کا تحفظ کرنے والوں کا کردار، وردی میں صدر کا الیکشن لڑنے کی اجازت بھی عدالت نے دی، کیا ہم بھول چکے ہیں کہ عدالت کی تاریخ کیا ہے، جب ہم جدوجہد کرکے آمر کو بھگاتے ہیں تو ان کو آئین و قانون یاد آتے ہیں۔ اس آئین میں کچھ ترامیم سو فی صد اتفاق رائے سے منظور کی گئی ہیں۔انہو ں نے کہا کہ آئینی عدالت بنانا چارٹر آف ڈیموکریسی کا حصہ تھا، ہم نے آئینی ترامیم میں جلد بازی نہیں کی، آئینی عدالت ہو یا آئینی بینچ ہو، عوام کا کام ہونے جارہا ہے۔اس سے قبل وہ یہ بھی کہ چکے تھے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے خود کہا کہ سنیارٹی کے ساتھ میرٹ بھی ضروری ہے، اگر وہ میرٹ پر پورے اترے تو چیف جسٹس بن جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ حقیقت قبول کرنا پڑے گی کہ وہ اختلاف رائے رکھیں لیکن اختلاف رائے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اپوزیشن کالے سانپ کی بات کرتی ہے، وہ کالا سانپ افتخار چودھری کی عدالت تھی، جہاں منتخب وزرائے اعظم کو فارغ کیا جاتا رہا۔اٹھارہویں ترمیم کے وقت مل کر آئین سے آمر کے تمام کالے قوانین کو نکالا، یہ ترمیم سیاسی جماعتوں اور جمہوریت کی فتح ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلاول بھٹو کی اس ترمیم کی کاوشوں کے ملک کے عوام اور سول سوسائٹی نے اس بات کو مانا ہے کہ بلاول کی سیاسی خوبیاں مزید نکھر کر سامنے آئیں ہیں کیونکہ 26ویں آئین کی منظوری سے ملک کا قانون مضبوط ہوا ہے اور پارلیمان کی عزت بڑھی ہے اور جمہوریت مضبوظ ہوئی ہے اوربلاول کی صورت میں مستقبل میں پاکستان کو ایک مضبوط لیڈرملتا اور حکمرانی کرتا نظر آرہا ہے ۔ اس ترمیم کی منظوری کے بعدپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان نے نیشنل ایکشن کمیٹی کے ذریعے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلا تحریک شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وکلا جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ کسی کو اگلا چیف جسٹس نہیں مانیں گے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عابد زبیری نے کہا کہ ہم عدلیہ کا جنازہ نہیں اٹھنے دیں گے، سب سے زیادہ حکومت کے خلاف کیس آتے ہیں، حکومت نے سب کچھ اسی لیے کیا ہے۔ایڈیشنل سیکریٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہباز کھوسہ نے کہا کہ 63 اے میں سہولت کاری کرنے والے ججز کو تنبیہ کرتا ہوں،کالے سانپ مستقبل میں آج کی حکومت کے گلے پڑیں گے لیکن تب کالے کوٹ ان کی سپورٹ کے لیے نہیں ہوں گے۔پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین نے کہا کہ یہ ترمیم ختم ہوگی انصاف کا بول بالا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن