بریسٹ کینسر ڈیٹا بنک

پنک ربن بائیس سال سے مرض سے آگاہی کے لئے مہم چلا رہی ہے
وزیراعلیٰ پنجاب کی نواز شریف ہاسپٹل میں الگ سے بریسٹ کینسر بلاک بنانے کی ہدایت
پاکستان کا پہلا’’بریسٹ کینسر ڈیٹا بنک‘‘ علاج کی سہولتوں کی فراہمی میں معاون ہوگا
 وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی نواز ہاسپٹل میں الگ سے بریسٹ کینسر بلاک بنانے کی ہدایت
ملک میں ہر سال چالیس ہزار خواتین اسی موذی مرض سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں
نواز شریف کینسر ہسپتال صوبے کا پہلا سرکاری ہسپتال ہوگا، پہلا فیز150 بستروں پر مشتمل ہوگا
333 کنال پر محیط ہسپتال کے پہلے فیز میں سو بیڈ بڑوں اور پچاس بچوں کے لئے مختص ہونگے
مریم نواز شریف نے تمام خواتین سٹاف بھرتی کرنے کی ہدایات جاری کر دیں

بریسٹ کینسر پوری دنیا میں خواتین کی صحت کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق پاکستانی خواتین ایشیاء بھر میں سب سے زیادہ بریسٹ کینسر کے خطرے سے دو چار ہیں اوریہاں ہر سال 40 ہزار خواتین اس بیماری کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ ان اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 10 ملین خواتین بریسٹ کینسر کے رسک پر ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب صوبے کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اس لئے پنجاب میں صوبے کی قیادت سنبھالتے ہی پہلے 100 دن میں اعلان کردہ منصوبوں میں کینسر ہسپتال کی تعمیر کا منصوبہ سر فہرست تھا۔
 وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اس موذی مرض کی تشخیص اور علاج کے لئے نواز شریف کینسر ہسپتال کو جلد از جلد مکمل کر کے جدید مشینری اورعلاج کی سہولتوں فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ خواتین کو اس مہلک مرض سے بچایا جا سکے اور ان کو بین الاقوامی معیار کی علاج معالجے کی سہولت اپنے صوبے میں میسر ہو۔  
عالمی ادارہ صحت دنیابھر میںیکم سے 31 اکتوبر تک بریسٹ کینسر سے آگاہی کی مہم چلاتا ہے۔ اس دوران دنیا بھرمیں بریسٹ کینسر سپیشلسٹ،طبی و سماجی تنظیمیں اور صحت یاب ہو نے والی خواتین اس مرض سے آگاہی پھیلانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ بریسٹ کینسر ایک قابل علاج مرض ہے لیکن صرف اس صورت میں اگر اس کی بر وقت تشخیص ہو جائے۔ اس بیماری سے 70 فیصد اموات دیر سے علاج شروع ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ بریسٹ کینسر سینے کا کینسر ہے جو کہ مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ عام ہے۔ جلد تشخیص کی صورت میں علاج کے بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔ کینسر ایسا مرض ہے جس میں جسمانی خلیات بغیر کسی کنٹرول کے تقسیم در تقسیم ہو کر ایک رسولی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ پیچیدہ اور موذی مرض جسم کے کسی بھی عضو میں ہو سکتا ہے۔
پنک ربن کے نام سے بریسٹ کینسر سے آگاہی کی مہم ہر سال چلائی جاتی ہے۔ اس ماہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایت پر حکومت پنجاب خواتین میں نمو پانے والے اس مرض کو پھیلنے سے روکنے کے لئے پنک ربن کے ساتھ مل کر آگاہی مہم میں حصہ لے رہی ہے تاکہ جلد از جلد پاکستان میں اس بیماری کی وجہ سے ہونے والی شرح اموات کو کم کیا جا سکے۔ پنک ربن گذشتہ 22سال سے پاکستان میں اس مرض سے متعلق آگاہی کے لئے کام کر رہی ہے۔ 
مریم نواز شریف نے وزارت اعلیٰ پنجاب کا منصب سنبھالتے ہی عوام کو ریلیف کی فراہمی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے صحت ان میں درجہ اول پر ہے۔ صحت کے شعبے میں مختلف منصوبوں کے ساتھ ساتھ نواز شریف کینسر ہسپتال ایک ایسا منصوبہ ہے جو صوبہ کے عوام کو کینسر جیسے موذی مرض کا علاج مفت فراہم کرے گا۔ہسپتال کا پہلافیز 150بستروں پر مشتمل ہوگا، 333کنال پر محیط ہسپتال کے پہلے فیزمیں 100بیڈ بڑوں اور 50بیڈ بچوں کیلئے ہوں گے۔اس فیزکی تعمیرکا تخمینہ 3ارب 26کروڑ روپے لگایاگیاہے۔اس ہسپتال کی تعمیرآئی ڈیپ کے ذریعے ہوگی۔اس ہسپتال میں اس مرض کی بروقت تشخیص اور علاج کے لئے جدید مشینری، طریقہ علاج اور ادویات استعمال کی جائیں گی۔ 
نواز شریف کینسر ہسپتال میں بریسٹ کینسر کے علاج کے ساتھ ساتھ تمام طرح کے کینسرز پر ریسرچ کے لئے لیبارٹری بھی قائم کی جائے گی جو کہ اس مرض کے پھیلائو کو روکنے کے لئے نئے طریقہ علاج پر کام کرے گی۔ کینسر ایک ایسی بیماری ہے جو لاحق ہو جائے تو اس سے ایک تو انسان دہشت کا شکار ہو جاتا ہے دوسرا اس کا علاج بہت مہنگا ہے جس کے اخراجات برداشت کرنا ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے۔ پاکستان میں کچھ عرصہ قبل تک اگر کسی کو کینسر لاحق ہو جاتا تھا تو وہ زندگی سے مایوس ہو جاتا تھا اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے نواز شریف کینسر ہسپتال میں ایک سائیکاٹری ڈیپارٹمنٹ بھی بنایا جائے گا جس کا مقصد علاج کے دوران مریض کو جذباتی اور نفسیاتی معاونت فراہم کرنا ہے تاکہ مریض کے اندر اس بیماری کے خوف کو کم کر کے اس سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کیا جا سکے جو کہ بین الاقوامی صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔   
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف سے پنک ربن پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عمر آفتاب نے ملاقات کی جس میں پاکستان کاپہلا کینسر ڈیٹا بنک قائم کرنے پر اتفاق کیاگیا۔ کینسر کے مریضوں کا مستند ڈیٹا میسر ہونے سے علاج کی سہولتیں فراہم کرنے میںآسانی ہوگی جس کے باعث پنجاب بھرمیں متعین لیڈی ہیلتھ وزٹرز بریسٹ کینسر کلینکس پر تشخیص میںاپناکردار اداکرسکیں گی۔وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ پنجاب میںفی میل سٹاف کیلئے میموگراف کے ٹیسٹ کی سہولت لازمی فراہم کی جائے۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے کینسر ہسپتال میں الگ سے بریسٹ کینسر بلاک بنانے اورتمام سٹاف خواتین بھرتی کرنے کی ہدایات بھی جاری کر دیں۔پاکستان میں کینسر کا یہ پہلا سپیشلائزڈ سرکاری ہسپتال ہوگا جو مریضوں کوکینسرکا مفت علاج فراہم کریں۔
بریسٹ کینسر مختلف ماحولیاتی اور موروثی عناصر کا مرکب ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہونے والی ترقی سے کینسر کے سیل کا بہت قریب سے مشاہدہ ممکن ہوا ہے۔ کینسر سیل کے ڈی این اے کی بناوٹ اور بریسٹ کینسر کی بیالوجی اور جینیٹکس کے تجزئیے سے اس بیماری کو سمجھنے میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔ ان جدید سائنسی معلومات کے سبب بریسٹ کینسر کے علاج کے لئے مختلف طریقہ کار متعارف ہوئے ہیں جن سے اس بیماری کے علاج میں کافی بہتری آئی ہے اور مریضوں کی زندگیاں بہتر ہوئی ہیں۔ نئے طریقہ علاج میں کیمو تھراپی اور جدید ٹارگٹ تھراپی شامل ہیں۔ بریسٹ کینسر کے علاج میں متعارف ہونے والے نئے طریقوں سے اس بیماری سے ہونے والی اموات میں قابل ذکر کمی تو آئی ہے لیکن اس بیماری کے لاحق ہونے کی اصل وجہ معلوم کرنے کے لئے مسلسل تحقیق جاری ہے۔ پھر بھی کچھ خطرات ایسے ہیں جن کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ جیسے جیسے عورت کی عمر بڑھتی ہے اس کو بریسٹ کینسر ہونے کا خطرہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اسی طرح مخصوص ایام کا بہت جلد شروع ہونا یا مینو پاز دیر سے ہونے سے بھی بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ بے اولاد خواتین اور 30 سال کی عمر کے بعد پہلی زچگی ہونا بھی اس بیماری کے ہونے کا خطرہ ہو سکتی ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق موٹاپا بریسٹ کینسر کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے اور خاص طور پر وہ خواتین جو مینو پاز سے کچھ عرصہ قبل موٹی ہو جاتی ہیں۔زیادہ چکنائی والی غذائیں بھی بریسٹ کینسر کا موجب ہوتی ہیں اس لئے بہتر ہے کہ غذا میں سبزیوں کا استعمال زیادہ کریں۔ موروثی طور پر بریسٹ کینسر کی شکایت کا تناسب تمام بریسٹ کینسرز کا 25 فیصد ہے۔ ایسی خواتین جن کے خاندان میں خصوصاً ماں، بہن،خالہ وغیرہ کو یہ بیماری لاحق ہو چکی ہو اُن کو بہت محتاط رہنا چاہئے کیونکہ ان کو بریسٹ کینسر ہونے کا شدید خطرہ رہتا ہے۔
 کینسر لا علاج نہیں اگر اس کی تشخیص اور علاج بروقت ہو جائے۔ عالمی سطح پر کی گئیں نئی تحقیقات کے سبب کچھ نئی ادویات اور تھراپی متعارف ہوئی ہیں جو کہ بریسٹ کینسر کی ابتدائی سٹیج کے ساتھ ساتھ تیسری اور چوتھی سٹیج میں مبتلا مریضوں کے لئے بھی فائدہ مند ثابت ہو رہی ہیں اور ان کی متوقع زندگی میں کافی بہتری نظر آئی ہے، اگرچہ یہ ادویات کافی مہنگی ہیں۔ عوام کو سمجھانے کے لئے چھاتی کے کینسر کو چار سٹیجز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اگر کینسر صرف چھاتی تک محدود ہو تو اس کو سٹیج ون کہتے ہیں۔ اگر کینسر متعلقہ طرف کی بغل تک پہنچ جائے تو اس کو سٹیج ٹو کہا جاتا ہے۔ اگر بیماری گردن تک پہنچ جائے تو سٹیج تھری اور کینسر اگر پھیپھڑوں، جگر، ہڈیوں اور جسم کے دوسرے دور دراز حصوں تک پہنچ جائے تو اس کو سٹیج فور کہا جاتا ہے۔ 
مریض کو کس قسم کے علاج کی ضرورت ہے اس کا انحصار کینسر کی سٹیج اور اس کی قسم پر ہوتا ہے، کیونکہ بعض اوقات گلٹی کا سائز تو چھوٹا ہوتا ہے لیکن وہ مہلک زیادہ ہوتی ہے،اگر ہم چھاتی کے کینسر کے علاج کی بات کریں تو اس میں مختلف معالج مل کر کام کرتے ہیں،جن میں سرجن، انکالوجسٹ، ریڈیو تھراپسٹ، پلاسٹک سرجن اور بعض اوقات شعبہ نفسیات کے ماہر بھی شامل ہوتے ہیں مریض کو جب بھی چھاتی میں کوئی تکلیف ہو تو فوراً سرجن سے رابطہ کرنا چاہیے، وہ معائنہ کرکے اس کے ضروری ٹیسٹ کروائے گا اور یہ فیصلہ کرے گا کہ اس کو کینسر ہے یا نہیں،اگر کینسر ہے تو وہ کینسر کی قسم اورStage کے مطابق فیصلہ کرے گا کہ اس کی پہلی سرجری ہونی چاہیے یا کہ پہلے دوائیں Chemotherapy یا شعائیں Radiotherapy دینی چاہیں اور اس کے بعد سرجری ہونی چاہیے۔
چھاتی کے کینسر کی بالعموم علامات چھاتی میں گلٹی، نیپل سے خون یا کسی رطوبت کا خراج، نیپل کا اندر دھنس جانا یا بعض اوقات چھاتی میں ایسی شوشنر جو عام طریق علاج سے نہ ٹھیک ہو قابل ذکر ہیں،ان حالات میں مریض کو فوراً سرجن سے رابطہ کرنا چاہیے، وہ معائنہ کے بعد ضروری ٹیسٹ کروائے گا، جو کہ بالعموم 35 سال سے کم عمر خواتین میں الٹرا ساؤنڈ اور 35 سال سے زیادہ عمر خواتین میں میموگرافی ہوتے ہیں،روایتی طریقہ علاج کے مطابق چھاتی کے کینسر کی سرجری میں پوری چھاتی نکال دی جاتی ہے، لیکن جدید طریق علاج میں موزوں کیسز میں کینسر سرجری بغیرپوری چھاتی نکالے بھی کی جا سکتی ہے اور اگر پوری چھاتی نکال بھی دی جائے تو اس کو اسی وقت یا بعد میں بذریعہ پلاسٹک سرجری بریسٹ کنزرویشن سرجری دوبارہ بنایا جا سکتا ہے۔ 
ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں اس چیز کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے کہ وہ اس چیز کو سمجھیں کہ چھاتی کے سرطان کا اگر بروقت علاج کیا جائے تو یہ قابل علاج ہے،اس سلسلے میں نوجوان خواتین بالعموم اور 35 سال کے بعد بالخصوص اپنی چھاتی کا خود معائنہ کرنا سیکھیں، اور اگر کوئی بھی مشکوک علامات پائیں تو سرجن سے رابطہ کریں،1 فیصد کیسز میں مردوں کی چھاتی میں بھی کینسر پایا جاتا ہے اور مردوں میں پایا جانے والا کینسر بالعموم زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ 
 ٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن