اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ)وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کو پاکستان کی تاریخ میں اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج ایک نئی صبح طلوع ہوئی ہے، پاکستان کے عوام، ریاست پاکستان اور جمہوریت کی فتح ہوئی ہے، تاریخ ثابت کرے گی کہ آئینی ترمیم عوام کے حق میں ہوگی۔ یہ بات انہوں نے بلاول بھٹو زرداری، فضل الرحمان، وفاقی کابینہ کے ارکان، تمام اتحادی جماعتوں اور قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہی۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ آئینی ترمیم سے آئینی و قانونی معاملات کو مزید استحکام ملے گا، 26 ویں آئینی ترمیم پر طویل مشاورت ہوئی، حکومت نے حتی الامکان کوشش کی کہ آئینی ترمیم پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری جمہوریت کی کامیابی ہے جسے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ رانا ثناء اللہ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم پی ٹی آئی کو کیوں نہ تحریک انتشار یا تحریک احتجاج کہیں؟ جو ترامیم ہم نے منظور کیں ان کا مسودہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی نے بنایا، جن چیزوں پر پی ٹی آئی نے مولانا سے اتفاق کیا ان پر ہم مانے تو یہ بھاگ گئے۔ چیف جسٹس کی تعیناتی سے متعلق بات بھی فتنہ گری کیلئے کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس کی نامزدگی سادہ اکثریت سے نہیں دو تہائی اکثریت سے ہوگی۔ سینئر موسٹ کے تصور نے عدلیہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کمشن میں جوڈیشری کے 3 لوگ ہیں، بار کو ساتھ ملا کر تعداد 6 ہو جائے گی، اپوزیشن کے 2 ارکان ہیں۔ یہی مسودہ پی ٹی آئی نے مولانا کے ساتھ بیٹھ کر بنایا۔ ہمارا سوچا سمجھا مؤقف تھا کہ ترمیم مولانا کو ساتھ ملاکر کرنی ہے۔ تین سینئر ججز میں سے چیف جسٹس بنانے کا آئیڈیا ہمارا نہیں عدلیہ کا ہے۔ جوڈیشل کمیشن بالکل متوازن ہے۔ کمشن میں جوڈیشری کا پلڑا بھاری ہے۔ کاسٹنگ ووٹ یا تو اپوزیشن کے پاس ہے یا بار کے پاس ہے۔ فضل الرحمان کے مسودے میں سب چیزیں موجود تھیں۔ ہم نے یہ ترمیم اتفاق رائے سے پیش کی۔ پی ٹی آئی کا مقصد لڑائی جھگڑا اور فتنہ و فساد ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ بہت اچھے اور ساکھ والے جج ہیں۔ حکومت من مانی نہیں کر سکتی نہ جوڈیشری کر سکتی ہے۔ جوڈیشل کمشن بہت طاقتور ہے اور اس کی صدارت چیف جسٹس کے پاس ہے۔ ان ہی جج صاحبان نے ایک دوسرے کو خطوط لکھے جو میڈیا میں لیک ہوئے۔