سعودی عرب مقامی باشندوں کی اوسط عمر تقریبا 80 برس تک پہنچانے کا خواہش مند ہے اور اس کے لیے صحت عامہ کا مفہوم اور معیار زندگی مضبوط بنانے پر کام ہو رہا ہے۔ البتہ اس سلسلے میں کزن میرج کے نتیجے میں موروثی امراض کا معاملہ طبی چیلنج بن کر ایک بار پھر معاشرے کے سامنے کھڑا نظر آتا ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کو حاصل معلومات کے مطابق سعودی عرب میں کزن میرج کا ارادہ رکھنے والے 90% افراد بعض موروثی امراض کے حامل ہونے کے بارے میں جانتے ہیں تاہم اس کے باوجود وہ اپنی رشتے دار خواتین سے شادی کر لیتے ہیں۔ البتہ یہ شرح کم ہو کر 40% تک نیچے آ چکی ہے۔ یہ بات سعودی سوسائٹی آف جینیٹک میڈیسن کے ترجمان ڈاکٹر زہیر رہبینی نے بتائی۔رہبینی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سائنسی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ سعودی عرب میں کزن میرج کی شرح 60% کے قریب ہے جو بہت بلند شمار ہوتی ہے۔ یہ کئی خلیجی اور عرب ممالک مثلا سوڈان اور یمن میں ریکارڈ کی گئی شرح کے قریب ہے۔ سعودی عرب کے بعض علاقوں اور دیہات میں یہ شرح 90% تک پائی جاتی ہے۔ اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ مملکت میں موروثی امراض کے حوالے سے اجتماعی طبی آگاہی ابھی تک اس رجحان کو کم کرنے میں غیر مؤثر جو مذکورہ امراض کا مرکزی سبب ہے۔درحقیقت سعودی عرب میں صحت کے نظام نے شادی سے قبل طبی معائنے کے اجرا کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس کا مقصد خون کے بعض موروثی امراض اور بعض متعدی امراض سے متاثر ہونے کی سطح کو جانا جا سکے۔ اس طرح شادی کرنے والے جوڑے کو یہ طبی مشورہ دیا جا سکے گا کہ شادی کے نتیجے میں مستقبل میں شریک حیات یا بچوں کو ان موروثی امراض کے منتقل ہونے کا کتنا امکان ہے۔ مزید یہ کہ شادی کا ارادہ رکھنے والے جوڑے کے سامنے متبادل رکھے جا سکیں تا کہ ایک صحت مند گھرانے کی منصوبہ بندی میں ان کی مدد کی جا سکے۔ڈاکٹر زہیر کے مطابق سعودی عرب میں پھیلے زیادہ تر موروثی امراض "ریسسیو ڈس آرڈرز" کے نام سے جانے جاتے ہیں، جیسا کہ میٹابولک بیماریاں، کچھ سنڈرومز اور خون کی وراثتی بیماریاں۔ مثلاً والدین میں ایک فرد خاص بیماری کے لیے متاثرہ جینیاتی مادہ اور دوسرا صحت مند جینیاتی مادہ رکھتا ہے لیکن ان میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں کیوں کہ صحت مند جین اپنی معمول کی فعالیت انجام دیتا ہے۔