پاکستان کے سرکاری میڈیا نے پیر کو اطلاع دی کہ پاکستان کے مشرقی صوبہ پنجاب میں حکومت نے 3,000 پسماندہ خواتین کے لیے اجتماعی شادی کا پروگرام شروع کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں درخواستوں کی وصولی شروع ہو گئی ہے۔
پاکستان میں شادیاں اکثر ایک مہنگا اور اسرافی معاملہ ہوتی ہیں جو بالخصوص کم آمدنی والے خاندانوں پر ایک بڑا مالی بوجھ ڈالتی ہیں۔ روایتی جنوبی ایشیائی شادی کے تہواروں میں مہنگی تقریبات، شاہانہ کھانا، اور آرائش و زیبائش شامل ہوتی ہیں۔یہ مالی بوجھ کئی پاکستانیوں کے لیے تقصان اور اذیت کا باعث ہے کیونکہ ملک ایک طویل معاشی بحران کا شکار ہے جس میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں اضافہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ مقامی رسم و رواج کے مطابق دلہن کے مرد رشتہ داروں سے دولہا کو جہیز دینے کی توقع کی جاتی ہے اور اس شرط کی وجہ سے اکثر شادیوں میں تاخیر ہوتی ہے۔نشریاتی ادارے ریڈیو پاکستان نے پیر کو اطلاع دی، "وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا اجتماعی شادی پروگرام 'دھی رانی' صوبے میں شروع کر دیا گیا ہے۔ پروگرام کے تحت اجتماعی شادیوں میں شمولیت کے لیے درخواستوں کی وصولی شروع ہو گئی ہے۔"پروگرام کے لیے درخواستیں https://cm.punjab.gov.pk پر آن لائن جمع کرائی جا سکتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں ایک ہیلپ لائن 1312 بھی قائم کی گئی ہے جبکہ خصوصی ٹیمیں درخواست گذاروں کے گھر جا کر مالی اور گھریلو حالات کا جائزہ لیں گے تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔اجتماعی شادی کے پروگرام کے تحت ہر دلہن کو تقریباً 100,000 (350 ڈالر) روپے کے ساتھ فرنیچر، کپڑے، ڈنر سیٹ اور 13 ضروری گھریلو اشیا ملیں گی۔پاکستان بھر میں کم آمدنی والے طبقات کے لیے اجتماعی شادیاں باقاعدگی سے منعقد کی جاتی ہیں جس کے لیے حکومتی اقدامات، مخیر افراد کی کوششیں اور مقامی کمیونٹیز مالی امداد فراہم کرتی ہیں۔ اس اجتعاع میں عموماً دسیوں جوڑے شامل ہوتے ہیں جن کے ایک ہی تقریب میں شادی کرنے سے اخراجات میں نمایاں کمی آتی ہے۔جنوری میں ملک کے جنوبی بندرگاہی شہر کراچی میں پاکستان ہندو کونسل کے زیرِ اہتمام ایک ایسی ہی تقریب میں 122 ہندو جوڑوں کی شادی ہوئی تھی۔