ایک ایسے وقت میں جب تہران کی جانب سے یکم اکتوبر کو ہونے والے میزائل حملے پر اسرائیلی رد عمل کا بے چینی سے انتظار کیا جا رہا ہے، اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان پر تبصرہ کیا ہے جو انھوں نے گذشتہ ہفتے جرمنی میں دیا۔ایرانی مشن نے پیر کے روز کہا کہ بائیڈن نے ایران پر اسرائیل کی غیر قانونی فوجی جارحیت کے لیے "ضمنی موافقت اور واضح حمایت" کا اشارہ دیا۔سلامتی کونسل کو بھیجے گئے خط میں ایرانی مشن نے مزید کہا کہ "ایران کے خلاف اسرائیل کی کسی بھی دشمنانہ کارروائی کے لیے اشتعال انگیزی میں کردار ادا کرنے ... اور علاقائی و بین الاقوامی سطح پر امن و سلامتی پر تباہ کن دور رس اثرات کی پوری ذمے داری امریکا پر عائد ہو گی "۔واضح رہے کہ بائیڈن نے اپنے برلن کے دورے کے دوران میں صحافیوں کو دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ وہ ایران کے خلاف اسرائیل کی جوابی کارروائی کے طریقہ کار اور تاریخ کے بارے میں جانتے ہیں۔ تاہم امریکی صدر نے تفصیلات ظاہر نہیں کی تھیں۔ایرانی ٹھکانوں پر حملوں کے آئندہ اسرائیلی منصوبے کے حوالے سے گذشتہ دنوں کے دوران میں خطرناک امور افشا ہو کر سامنے آئے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی اور قومی سلامتی ایجنسی سے منسوب دستاویزات میں انکشاف کیا گیا کہ اسرائیل نے یکم اکتوبر کے ایرانی بیلسٹک میزائل حملے کا جواب دینے کے لیے اپنے عسکری اثاثوں کو متحرک رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں اسے پانچ معاونین امریکا، برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی مدد حاصل ہے۔انتہائی خفیہ قرار دی جانے والی یہ دستاویزات 19 اکتوبر کو ٹیلی گرام پر جاری کی گئیں۔ بعد ازاں CNN نیوز چینل اور axios ویب سائٹ نے ان پر روشنی ڈالی۔ادھر 3 امریکی عہدے داران نے تصدیق کی ہے کہ واشنگٹن نے یہ جاننے کے لیے تحقیقات شروع کر دی ہیں کہ ایران پر اسرائیلی حملے کے منصوبوں سے متعلق یہ خفیہ دستاویزات کس طرح افشا ہوئیں۔ایک چوتھے امریکی عہدے دار کا کہنا ہے کہ یہ دستاویزات اصلی لگ رہی ہیں۔ان میں ایک عہدے دار نے واضح کیا کہ تحقیقات میں یہ بھی پتہ چلایا جائے گا کہ آیا امریکی انٹیلی جنس کمپاؤنڈ کے کسی رکن نے دستاویزات کو دانستہ طور پر افشا کیا یا پھر انھیں دیگر طریقوں مثلا ہیکنگ یا پائریسی کے ذریعے حاصل کیا گیا۔یاد رہے کہ مذکورہ دستاویزات کا اجرا انتہائی حساس وقت سامنے آیا ہے جب کہ اسرائیل اور ایران کے بیچ علاقائی جنگ چھڑنے کے امکان کے ساتھ مشرق وسطی میں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔