خادم پنجاب میاں شہباز شریف اپنی نظامت، محنت اور زیادہ کام کرنے والے سربراہ صوبہ پنجاب میں پہچانے جاتے ہیں کیونکہ ان کی نظامت کی ٹریننگ اتفاق فاﺅنڈری میں اپنے والد ماجد محترم میاں محمد شریف (مرحوم) کی سرکردگی میں ہوئی۔ اتفاق فاﺅنڈری کی کامیابی میں میاں محمد شریف صاحب کی محنت، دیانت اور تول میں انصاف تھا لہٰذا اس طرح یہ ادارہ سیلابی ریلے کی طرح ترقی کرتا گیا۔ سیاست سے ان حضرات کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا، نہ یہ لوگ (شریف صاحبان) جن کو آج کل محترم بابر اعوان تخت لاہور پکارتے ہیں۔ یہ اس شاہانہ زندگی کی لذت سے حالات کی وجہ سے آشنا ہوئے۔ پہلے نواز شریف میدان میں اتارے گئے۔ میاں نواز شریف بطور وزیر خزانہ پنجاب کامیاب رہے۔ لوگوں کو ریلیف میسر آیا۔ پھر وہ وزیراعظم دو بار ہوئے۔ کئی نئے منصوبے موٹر وے، عمارتیں، سڑکیں تعمیر ہوئیں۔ بیرونی پالیسی اچھی رہی۔ بھارتی وزیراعظم واجپائی لاہور بس کے ذریعے آئے۔ تعلیم کے میدان میں اور صحت کی طرف توجہ ہوئی۔ ہسپتال، کالج بنے۔ 28 مئی 1998ءکو ایٹمی دھماکہ کیا پھر اپنے نامزد فوجی کمانڈر کا شکار ہوئے۔ اٹک جیل دیکھی، ملک بدر ہوئے۔ واپس آئے اور اس طرح اب سیاست اس خاندان کے تمام افراد میں سرایت کر گئی۔
میاں شہباز شریف بھی آئے۔ روز نئے منصوبے بناتے ہیں۔ آشیانہ سکیم، دانش سکول، اوور ہیڈ، فلائی اوور وغیرہ وغیرہ ترقیاتی منصوبے بنتے ہیں۔ روپیہ خرچ ہوتا ہے مگر حکومت پنجاب میں ہزاروں لوگ بدامنی کا شکار ہیں۔ ہر روز اخبارات میں خبریں چوری، ڈاکہ، بینک کی لوٹ مار، موٹر سائیکل، کار چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پولیس کیا کر رہی ہے؟ حالانکہ پولیس چاہے تو لوگ آرام سے زندگی بسر کر سکتے ہیں گویا سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹی صحیح نہیں دیتے۔ چیک اپ نہیں کنٹرول نہیں! پنجاب بھر میں تعلیمی اداروں کی بری حالت ہے۔ اساتذہ نہیں، سکول کی عمارت نہیں، پانی نہیں۔ خود خادم اعلیٰ کئی بار اس کا اظہار کر چکے ہیں۔
آئیے! بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری کا حال دیکھیں۔ کس قدر ظلم ہے، زیادتی ہے، بے انصافی ہے۔ والدین نے کس طرح بچوں کو پڑھایا، ہزاروں لاکھوں روپیہ زیور پڑھائی پر خرچ کیا، امتحانی سنٹر میں امتحان دلوایا اور نتیجہ بورڈ کے آفیسرز نے کیا نکالا کہ کمپیوٹر نے جمع، ٹوٹل غلط کر دیا۔ پاس فیل ہو گئے اور فیل پاس ہو گئے! اب لوگ 700 روپیہ ایک پرچہ کی دوبارہ مارکنگ فیس جمع کرا کر اس گرمی حبس میں اپنا اپنا رزلٹ حاصل کر رہے ہیں۔ کس قدر نااہلی اور اپنی ڈیوٹی سے بیوفائی ہے کہ بھاری تعداد میں نئی نسل کو مایوس کیا گیا۔ کیا وزیر اعلیٰ نے کسی آفیسر کے خلاف ایکشن لیا، کسی کی گردن دبائی، کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ کوئی بچہ مایوس ہو کر تعلیم چھوڑ سکتا ہے، خودکشی کر سکتا ہے۔
میاں شہباز شریف صاحب! آپ کو کئی چیلنجز ہیں۔ آپ نے سستے بازار کا حال دیکھ لیا۔ کہاں اشیاءسستی ہیں! واسا کا حال دیکھ لیا۔ بارش کی بوندیں پڑیں اور لاہور سارے کا سارا سیلاب زدہ ہو جاتا ہے۔ اب بتائیں ٹریفک کون کنٹرول کرتا ہے؟ وارڈن تو چالان کرتے ہیں۔ اکثر بجلی نہیں ہوتی، لائٹس نہیں ہیں، ہُو کا عالم ہے۔ آپ سڑکوں پر بحیثیت عام شہری شہباز شریف گاڑی پہلے کی طرح چلائیں۔
آپ لوگ تو لوگوں سے چنے گئے ہیں، آپ آہستہ آہستہ چلیں، لوگ آپ کو دیکھیں، لوگ سلام کرنا چاہتے ہیں، آپ کا دیدار کرنا چاہتے ہیں، آپ ان کو منہ نہیں دکھاتے۔
اگر اچھی ایڈمنسٹریشن کرنی ہے تو اپنے ”آدمی“ کی بجائے سلیکشن بذریعہ بورڈ کریں اور خود ہر جگہ نہ پہنچیں، رپورٹ مانگیں، مانیٹرنگ کریں، نااہل کو ہٹائیں یا قانون کے مطابق سزا دیں تاکہ لوگ انصاف حاصل کر سکیں اور کام صحیح ہو۔
ذرا سوچیں لوگ کیوں آئے روز احتجاجی ریلی، دھرنا دیتے ہیں! ان ہڑتالوں سے کاروبار پر برا اثر پڑتا ہے، لوگ پریشان ہوتے ہیں۔ دہشت گردی ایک مزید عذاب ہے اور ملکی ایڈمنسٹریشن میں کمزوری دوسری بیماری ہے۔
میاں شہباز شریف بھی آئے۔ روز نئے منصوبے بناتے ہیں۔ آشیانہ سکیم، دانش سکول، اوور ہیڈ، فلائی اوور وغیرہ وغیرہ ترقیاتی منصوبے بنتے ہیں۔ روپیہ خرچ ہوتا ہے مگر حکومت پنجاب میں ہزاروں لوگ بدامنی کا شکار ہیں۔ ہر روز اخبارات میں خبریں چوری، ڈاکہ، بینک کی لوٹ مار، موٹر سائیکل، کار چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پولیس کیا کر رہی ہے؟ حالانکہ پولیس چاہے تو لوگ آرام سے زندگی بسر کر سکتے ہیں گویا سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹی صحیح نہیں دیتے۔ چیک اپ نہیں کنٹرول نہیں! پنجاب بھر میں تعلیمی اداروں کی بری حالت ہے۔ اساتذہ نہیں، سکول کی عمارت نہیں، پانی نہیں۔ خود خادم اعلیٰ کئی بار اس کا اظہار کر چکے ہیں۔
آئیے! بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری کا حال دیکھیں۔ کس قدر ظلم ہے، زیادتی ہے، بے انصافی ہے۔ والدین نے کس طرح بچوں کو پڑھایا، ہزاروں لاکھوں روپیہ زیور پڑھائی پر خرچ کیا، امتحانی سنٹر میں امتحان دلوایا اور نتیجہ بورڈ کے آفیسرز نے کیا نکالا کہ کمپیوٹر نے جمع، ٹوٹل غلط کر دیا۔ پاس فیل ہو گئے اور فیل پاس ہو گئے! اب لوگ 700 روپیہ ایک پرچہ کی دوبارہ مارکنگ فیس جمع کرا کر اس گرمی حبس میں اپنا اپنا رزلٹ حاصل کر رہے ہیں۔ کس قدر نااہلی اور اپنی ڈیوٹی سے بیوفائی ہے کہ بھاری تعداد میں نئی نسل کو مایوس کیا گیا۔ کیا وزیر اعلیٰ نے کسی آفیسر کے خلاف ایکشن لیا، کسی کی گردن دبائی، کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ کوئی بچہ مایوس ہو کر تعلیم چھوڑ سکتا ہے، خودکشی کر سکتا ہے۔
میاں شہباز شریف صاحب! آپ کو کئی چیلنجز ہیں۔ آپ نے سستے بازار کا حال دیکھ لیا۔ کہاں اشیاءسستی ہیں! واسا کا حال دیکھ لیا۔ بارش کی بوندیں پڑیں اور لاہور سارے کا سارا سیلاب زدہ ہو جاتا ہے۔ اب بتائیں ٹریفک کون کنٹرول کرتا ہے؟ وارڈن تو چالان کرتے ہیں۔ اکثر بجلی نہیں ہوتی، لائٹس نہیں ہیں، ہُو کا عالم ہے۔ آپ سڑکوں پر بحیثیت عام شہری شہباز شریف گاڑی پہلے کی طرح چلائیں۔
آپ لوگ تو لوگوں سے چنے گئے ہیں، آپ آہستہ آہستہ چلیں، لوگ آپ کو دیکھیں، لوگ سلام کرنا چاہتے ہیں، آپ کا دیدار کرنا چاہتے ہیں، آپ ان کو منہ نہیں دکھاتے۔
اگر اچھی ایڈمنسٹریشن کرنی ہے تو اپنے ”آدمی“ کی بجائے سلیکشن بذریعہ بورڈ کریں اور خود ہر جگہ نہ پہنچیں، رپورٹ مانگیں، مانیٹرنگ کریں، نااہل کو ہٹائیں یا قانون کے مطابق سزا دیں تاکہ لوگ انصاف حاصل کر سکیں اور کام صحیح ہو۔
ذرا سوچیں لوگ کیوں آئے روز احتجاجی ریلی، دھرنا دیتے ہیں! ان ہڑتالوں سے کاروبار پر برا اثر پڑتا ہے، لوگ پریشان ہوتے ہیں۔ دہشت گردی ایک مزید عذاب ہے اور ملکی ایڈمنسٹریشن میں کمزوری دوسری بیماری ہے۔