نیویارک کی عدالت میں سماعت کا آغاز ہوا ‘ جج نے قیدی نمبر 650 کو مقدمے کی سماعت کے لیئے طلب کیا‘ توامریکی فوجیوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تشدد سے دکھتی‘ اداس ‘ اپنے دامن عصمت پر امریکی غنڈے نما اہلکاروں کے داغ لیئے اور کراہتی 35سالہ جوان ملزمہ کووہیل چیئر پر عدالت میں لایا گیا۔اس پر اقدام قتل،القاعدہ ارکان کے ساتھ مل کر امریکا پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی، ہیروں کی غیر قانونی اور مشکوک تجارت، افغانستان میں تعینات امریکی اہلکاروں پر حملہ کرنے کے الزامات عائد تھے۔اسنے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی عدالت میں بھرپور تردید کی ۔
وہ جب امریکہ میں حصول علم کے لیئے آئی تو اسنے کم عمر میں ایک مشکل سائنسی مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ‘ یہ کامیابی بہت کم ایشیائی خواتین کے حصے میں آئی ۔ امریکن یونیورسٹی میں اسکے ہم جماعت یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ خاموش، مذہبی میلان طبع رکھنے والی، انتہا پسندی سے متنفر اور ایک ہونہار طالبہ تھی۔اسلام سے لگن کا یہ عالم تھا کہ اسنے ایک دفعہ کہا،©”اے اللہ ہمارے ارادوں میں اتنی طاقت اور خلوص عطا فرما‘ ہماری نیک اور عاجزانہ کوششیں جاری رکھ یہاں تک کہ امریکہ مسلمانوں کی سر زمین بن جائے“۔
اس کی زندگی کے روشن دن سیاہ راتوں میں اسوقت بدلے جب وہ 30مارچ 2003 کو اپنے تین بچوں ‘ سات سالہ احمد، پانچ سالہ مریم اور چھ ماہ کے سلمان کے ساتھ اسلام آباد جانے کیلیئے ائرپورٹ روانہ ہوئی ‘ اسکی ماں نے اپنی بیٹی اور نواسوں کو خدا حافظ کہا اور آج نو برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس ماں کی آنکھیںانتظار میں پتھر کی ہو چکی ہیں‘ اسکی زبان پر جاری آخری الفاظ آج بھی ویسے ہی جاری ہیں‘ اسے بچوں سمیت امریکی خفیہ ایجنسیوں نے پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے اغوا کر لیااور © مئی 2004میں FBI کے ڈائریکٹر رابرٹ ملر نے اس کو دہشت گردی میں ملوث سات مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر لیا۔ اسے کابل سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر قائم بگرام جیل میں چار سال مردوں کے ساتھ رکھا گیا،اسے سونے، بیت الخلا، حتی کہ غسل کے لیئے بھی مردوں کے ساتھ اختلاط کرنا پڑتا۔بگرام جیل سے رہائی پانے والے قیدی آج بھی جب اس عورت کی چیخوں کو یاد کرتے ہیں تو خوف اور دہشت سے ان کے جسموں کے بال تک کھڑے وہ جاتے ہیں۔ حراست کے دوران اسکے ایک گردے کو نکال لیا گیا، اسکے ناک کی ہڈی اور دانت توڑ دیئے گئے ، گولی لگنے سے اسکے زخم مندمل نہ ہوسکے اور کافی دن تک ان سے خون رستا رہا، اسکی انتڑیاں کمزور ہو گئیں، اسکے اندرونی زخموں سے خون جاری رہا‘ عدالت میں لانے سے پہلے اسکی برہنہ تلاشی لی جاتی حتی کہ اسنے عدالت میں حاضر ہونے سے انکار کر دیا۔ایک دفعہ نیویارک جیل میں چہروں پر خول چڑھائے چھ مردوں نے اسکے ہاتھ کمر سے باندھ دیئے، اسے برہنہ کیا اور ویڈیو بنائی۔اسے رسوا کرنے کے بعد جب واپس جیل میں لے جایا جا رہا تھاتو پاس کھڑی ایک خاتون نے اسے کپڑے سے ڈھانپ دیااور ان درندوں سے اس پر رحم کی بھیک مانگتی رہی۔ )جاری ہے