ٹارگٹ کلرز بھتہ خور وں کو گولی ماری جاسکے گی، کابینہ میں دہشتگردی ایکٹ کا مسودہ منظور ........ مجوز ہ قانون حالات کے تقاضوں کے مطابق ،تاہم مانیٹرنگ بھی ضروری ہے

Sep 22, 2013

اداریہ

وفاقی کابینہ نے انسداد دہشت گردی ترمیمی مسودے کی منظوری دیدی جس کے مطابق تحقیقاتی ادارے تفتیش کےلئے ملزموں کو 30 کے بجائے 90 روز تک حراست میں رکھ سکیں گے اور یہ حراست کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مسلح افواج، سول فورسز، خفیہ اداروں اور ایس پی عہدے کے پولیس افسر پر مشتمل ہو گی، تحقیقاتی ٹیم ایف آئی آر کے اندراج کے 30 روز کے اندر ٹرائل کورٹ میں مقدمہ پیش کرےگی۔ اس مدت میں انکوائری مکمل نہ ہونے پر متعلقہ انکوائری افسر عبوری رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا پابند ہو گا، تحقیقات کے دوران انٹیلی جنس، عسکری اداروں سے باقاعدہ معاونت لی جا سکے گی۔ اس ترمیمی مسودہ کے مطابق پیرا ملٹری فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزاحمت کی صورت میں شدت پسندوں، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری میں ملوث افراد کو وارننگ دینے کے بعد گولی مارنے کا بھی اختیار حاصل ہو جائے گا۔ اجلاس میں رینجرز کو غیر معمولی اختیارات دینے کے مسودے کی منظوری دی گئی جس کے تحت مشتبہ افراد ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کو بھی وارننگ کے بعد گولی مارنے کا اختیار ہو گا۔ مسودے کے مطابق رینجرز اہلکار امن خراب کرنے، دہشت گردی میں ملوث افراد اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے افراد کو بھی گولی مارنے کا اختیار رکھیں گے۔ رینجرز کو نظربندی کے اختیارات بھی دینے کی بات کی گئی ہے تاہم وہ یہ اختیار صوبائی حکومت کی اجازت کے بعد ہی استعمال کریں گے۔ نئے مجوزہ قانون میں دہشت گردی کے مقدمات جلد نمٹانے، گواہوں اور استغاثہ کے وکلا کو مکمل تحفظ کی فراہمی اور تحقیقات کے عمل میں خفیہ اور عسکری اداروں کی معاونت جیسے معاملات شامل کئے گئے ہیں۔
کراچی28سال سے بد امنی، لاقانونیت، تخریب کاری اور دہشت گردی کی آگ میںجل رہا ہے۔اس دوران آمریت مسلط رہی اور سلطانی جمہور کے ادوار بھی آئے لیکن کراچی کی روشنیاں نہ لوٹ سکیں۔ ہر آنیوالا دن پہلے سے بد تر ثابت ہوا۔لسانی فسادات پھیلتے چلے گئے۔ایک گروپ کی اجارہ داری ختم ہوئی تو دوسرے نے شہر کو یرغمال بنالیا۔ ایک آدھ مرتبہ عروس البلاد کی رونقیں بحال کرنے کیلئے حکومت نے کوشش کی ،حالات کچھ نارمل ہوئے پھر جیسے حکومت کی تھوڑی سی توجہ ہٹی تو دہشت گردی کا آسیب پہلے کی طرح ڈریکولا بن گیا پھر شہر پر اجارہ داریوں کا مقابلہ شروع ہوا تو کراچی میں انسانیت سسکتی اور بلکتی ہوئی محسوس ہوئی۔آج صورتحال یہ ہے کہ بڑی جماعتوں کے جنگجو گروپس آپس میں ٹکرا رہے ہیںاور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ساتھ بھی برسرپیکار ہیں۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان اداروں میں انہی گروپوں نے اپنے لوگ داخل کردئیے جو اپنے پروردہ گروپوں کے مخبر اور ان کے مفادات کا تحفظ بھی کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی فرقہ واریت کا عفریت کراچی میں در آیا۔فاٹا میں فوجی اپریشن کے باعث شدت پسندوں کے گروپ بھی کراچی چلے آئے وہ بھی پہلے سے موجود مسلح گروپوں کی طرح کراچی کو اپنی قلمرو بنانے پر تُل گئے۔
طاقتور گروہ کراچی کونوچتے رہے۔ شہریوں کا کوئی پُرسان حال نہیں تھا جنہوں نے غم کا مداوا کرنا تھا وہی درد دینے والوں میں شامل تھے۔ گزشتہ پانچ سال سندھ میں پی پی پی،متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی حکومت میں رہے۔ہر پارٹی خود کو پارسا قرار دے کر دوسری پر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، قبضوں اور بھتہ خوری جیسے سنگین الزامات عائد کرتی رہیں۔ایسے میں کسی بھی قسم کے اپریشن کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔انسانی خون بہتا رہا دن میں 60 ساٹھ 70 ستر جنازے بھی اُٹھے لیکن ارباب اختیار کی پیشانی پر عرق ندامت نظر آیا ان کے ضمیر جاگے نہ انسانیت نے کروٹ لی۔ اب تو پانی سر سے اوپر ہوچکا تھا۔کراچی کی سب سے بڑی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ بھی چلا اُٹھی کہ کراچی میں امن کیلئے فوج بلائی جائے۔اس مطالبے کی شدید مخالفت ہوئی تاہم مسلم لیگ ن کی مرکزی حکومت نے تمام پارٹیوںکو اعتماد میں لیکر سندھ حکومت کی سربراہی میں ٹارگٹڈ اپریشن کا آغاز کیا جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے اس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار احمد چودھری نے بھی اطمینان کا اظہار تو کیا تاہم بہت کچھ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔
 لاقانونیت کے خاتمے کیلئے قوانین موجود ہیں جن کو بااثر لوگ متعلقہ اداروں کی کمزور ی کے باعث موم کی ناک بنالیتے ہیں۔ کراچی کی لاقانونیت اور بد امنی عام اورروٹین کی نہیں۔ حالات بدترین صورتحال اختیار کرچکے ہیں جہاں خصوصی اقدامات کی ضرورت تھی جو حکومت انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کا ترمیمی مسودہ لاکر پورا کر رہی ہے۔
چند روز قبل ڈائریکٹر جنرل رینجرز نے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کراچی کا امن بحال کرنے کیلئے خصوصی اختیارات کا تقاضا کیا تھا جو رینجرز کو تفویض کئے جارہے ہیں۔اس سے امید تو یہی ہے کہ کراچی کی روشنیاں لوٹ آئیں گی رینجرز کی نیک نامی پر متعدد بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کی صورت میں ایک دھبہ موجود ہے۔ماہرین یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیںکہ جب رینجرز کے پاس شوٹ ٹو کِل کے اختیارات نہیں تھے تب بھی وہ ایسا کرتی رہی ہے اب اختیار ملنے پر اس کا بے محابا استعمال شروع نہ ہوجائے۔رینجرزیا قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی اس طرح کے اختیارات کی مانیٹرنگ ہونی چاہئے۔ مسودہ کو قانون کی شکل میں ڈھالنے میں بھی کچھ دن لگیں گے۔ اس پر پارلیمنٹ میں بحث ہوگی اس دوران نئی تجاویز سامنے آئیں گی اگر کہیں کوئی سقم ہواتو وہ دور کرلیاجائیگا۔
کراچی میں بد امنی پر قابو پانے کیلئے مذکورہ مسودہ قانون لانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ جہاں اسلحہ کی بھرمار ہے غائب ہونے والے 19ہزار کنٹینرز میں سے زیادہ تر کا اسلحہ کراچی اور گردونواح میں ہی تقسیم ہوا جہاں 33ہزار تربیت یافتہ مفرور دہشت گرد ہیں جن کو اندرونی و بیرونی قوتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ایسے حالات پر روٹین کے اختیار والے ادارے قابو نہیں پاسکتے ۔اس حوالے سے 28سال کا تجربہ سامنے ہے۔رینجرز اور قانون نافذکرنیوالے اداروں کو نئے قوانین کے بعد مضبوط بنا کر کراچی کا امن توبحال کیاجاسکتا ہے اس کے پائیدار ہونے کی کیا گارنٹی ہوگی؟۔ اس کیلئے ملایشین طرز کی فورس بنائی جاسکتی ہے جس کی طرف چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اشارہ کیا ہے۔
 انسداد دہشت گردی کے لئے ملائشیا میں ”ملائشین سپیشل آپریشنز فورسز“ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ فورس 10پیرا ٹروپر بریگیڈ پر مشتمل ہے۔ اس میں ریپڈ ایکشن ٹروپس کے علاوہ سپیشل ٹاسک اینڈ ریسکیو (STAR) شامل ہیں۔ 10پیرا ٹروپر بریگیڈ ایک ایلیٹ ریپڈ ڈپلائمنٹ بریگیڈ ہے جو کہ ملائشیا کی فوج کا ایک حصہ ہے۔ اس فورس میں مرد اور خواتین پیرا ٹروپرز شامل ہیں۔ ملائشین سپیشل آپریشنز فورس کے ذمے جو کام سونپے گئے ہیں ان میں ملکی سلامتی کا دفاع اور خصوصی طور پر دہشت گردی سے نمٹنا ہے۔ یہ اقدامات امریکہ میں 9/11کے واقعات، بالی اور جکارتہ میں میریٹ ہوٹل پر دہشت گردی کے حملے، لندن، میڈرڈ، تھائی لینڈ میں دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں کئے گئے۔ پاکستان میں بنائی جانیوالی مجوزہ فورس مستقل بنیاد پر تشکیل دی جائے جو کراچی میں موجود رہے تاکہ دہشت گرد اندرونی یا بیرونی قوتوں کے ایما پر دوبارہ پروان نہ چڑھ سکیں۔

مزیدخبریں