ریاستی ادارے ایمانداری سے فرائض انجام دیں تو عدالتوں کا بوجھ کم ہو جائے گا : چیف جسٹس

Sep 22, 2013

لاہور (وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت نیوز) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ مقدمات کی شفاف اور جلد سماعت کے بغیر انصاف کا کوئی تصور نہیں۔ آئین کا آرٹیکل 10 غیرقانونی گرفتاری اور حراست کیخلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ 18 ویں ترمیم میں شامل آرٹیکل 10 اے ملزم کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو اختیارات کے ناجائز استعمال سے باز رکھنے کیلئے’’تفتیش برائے منصفانہ حقِ سماعت کا قانون مجریہ 2013ئ‘‘ نافذ کیا گیا ہے۔ ریاستی ادارے ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیں تو عدالتوں کا بوجھ کم ہوجائیگا۔ سپریم کورٹ بار کے زیراہتمام بین الاقوامی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے تمام متعلقہ طبقوں کی مشاورت کے بعدقومی عدالتی پالیسی مرتب کی گئی ہے۔ اس پالیسی کا اہم ہدف عدلیہ کو مضبوط کرنا ہے تاکہ عدلیہ ادارتی اور انتظامی خود مختاری کو استعمال کرے اور ججز مقدمات کا فیصلہ منصفانہ اور شفاف انداز میں مکمل آزادی سے کریں۔ عدلیہ کے دائرہ اختیارمیں نہیں کہ وہ رائج الوقت قوانین میں ترامیم کرے تاہم پالیسی کے تحت مقدمات میں درپیش تاخیر کو کم کرنے، دیوانی اور فوجداری مقدمات کا فیصلہ جلد کرنے اور ملزم کے منصفانہ حقِ سماعت کو شفاف اور یقینی بنانے کیلئے کئی ضروری اقدامات کئے گئے ہیں۔ آئین و قانون کی بالادستی کا احترام کرنیوالے ممالک میں مقدمات کی منصفانہ سماعت تسلیم شدہ حق ہے۔ اس حق کے عملی نفاذ کی بدولت انصاف تک رسائی کے حق کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے بنیادی حقوق کی اہمیت کو اُجاگر کیا جائے۔ منصفانہ ٹرائل کے موضوع پر پاکستانی اور غیر ملکی قانون دانوں کی یہ نشست انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چینی ضرب المثل ہے کہ ’’عقلمند آدمی سے میز پر ایک نشست ایک ماہ کی کتابوں کے مطالعے سے بہتر ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسلام انصاف کی اہمیت پر بہت زور دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں متعدد آیات میں انصاف کی فراہمی کا حکم دیا ہے۔ کسی بھی ملک میں لوگوں سے قانون کے مطابق مساوی سلوک نہ ہو تو اُنکے حقوق متاثر ہونگے، قانون کو ہاتھ میں لینے کا رجحان ہو گا جو کہ تمام معاشروں کیلئے مہلک ثابت ہو گا۔ حکومت کیلئے امن و امان قائم رکھنا مشکل ہوگا اور حکومتی رٹ قا ئم رکھنے میں مشکل ہو گی۔ دنیاکے تمام ممالک منصفانہ حقِ سماعت کو قانون کی حکمرانی کے حوالے سے تسلیم کرتے ہیں۔ بلیک لاء ڈکشنری کے آٹھویں ایڈیشن کے تحت منصفانہ حقِ سماعت کو ملزم کا آئینی اور قانونی حق سمجھ کر تحفظ دیا گیا ہے۔ عالمی قرارداد برائے انسانی حقوق 1948ء کے آرٹیکل 10 کے مطابق ہر شخص کا مساویانہ استحقاق ہے کہ اس پر عائد فوجداری الزام کے حقوق اور ذمہ داریوں کے تعین کیلئے آزادانہ اورغیر جانبدارانہ ٹربیونل کے ذریعے منصفانہ سماعت کی جائے۔ انسانیِ حقوق کے یورپی کنونشن کا آرٹیکل 6 بھی منصفانہ حقِ سماعت کو تحفظ دیتا ہے۔ پاکستان میں منصفانہ حقِ سماعت بنیادی حق کے طور پر بذریعہ آرٹیکل 10 اے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے قانون مجریہ 2010ء کے ذریعہ شامل کیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے مطابق کسی شخص کے دیوانی حقوق و فرائض یا اس کیخلاف کسی فوجداری استغاثہ کا تعین کرنے کیلئے وہ شخص منصفانہ سماعت اور درست طریقہ کار کا حقدار ہے۔ مذکورہ آرٹیکل سے پہلے بھی منصفانہ حقِ سماعت آئین میں موجود تھا۔ آئین کا آرٹیکل 10 غیر قانونی گرفتاری اور حراست کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ عدالتی فیصلوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے جہاں اعلیٰ عدلیہ نے ملزموں کے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ چیف جسٹس نے قومی اور بین الاقوامی اہمیت کے حامل موضوع پر مبنی کنونشن منعقد کرانے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ قومی اور بین الاقوامی ماہرین قانون کی شرکت نے اس کنونشن کی رونق کو دوبالا کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی بغیر کسی بلاخوف و خطر کے ہونی چاہئے۔ انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ کے ساتھ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ عدلیہ انصاف کی فراہمی میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کریگی۔ زمین پر انصاف انسان کا سب سے اہم مفاد ہے۔ ججز کو شفاف ٹرائل کے تجربات سے فائدہ اٹھانے میں مدد ملے گی۔ انصاف ہر قوم کے قوانین کا بنیادی جزو ہے‘ انصاف کی فراہمی کیلئے ہر شہری کا حق ہے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ‘ ہائیکورٹ کے ججز صاحبان کے علاوہ پاکستان‘ بھارت اور دیگر ممالک سے آنے والے وکلا بھی موجود تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں عدلیہ انصاف کی فراہمی کیلئے بھرپور اقدامات کر رہی ہے اور وکلا کو بھی چاہئے کہ وہ انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ کا ساتھ دیں اور جتنی جلدی ممکن ہو سکے کیسز کی کارروائی کو مکمل کروایا جائے۔ سپریم کورٹ نے مقدمات کو شفاف اور جلد سماعت کے بغیر انصاف کی فراہمی ممکن نہیں‘ انصاف کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے قومی عدالتی پالیسی ترتیب دی گئی ہے۔ مقدمات کے جلد فیصلوں‘ ملزم کے منصفانہ حق سماعت کیلئے متعدد اقدامات کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو سستا اور فوری انصاف مل رہا ہے اور عوام کے عدالتوں پر اعتماد میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے انصاف کیلئے عدالتوں سے رجوع کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا فیر ٹرائل کنونشن کا انعقاد کرانا انتہائی خوش آئند ہے، ججز کو بھی چاہئے کہ شفاف ٹرائل کے تجربات سے فائدہ حاصل کریں انصاف کے ضروری ہے کہ کیسز کی سماعت جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ مقدمات کی شفاف اور جلد سماعت کے بغیر انصاف کو انصاف نہیں کہا جا سکتا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو اپنے اختیارات کے استبدادی / ناجائز استعمال سے باز رکھنے کے لئے اور اختیارات کو انتظامیہ اور عدلیہ کی زیرِ نگرانی قانون کے مطابق رکھنے کیلئے تفتیش برائے منصفانہ حقِ سماعت کا قانون مجریہ 2013ء نافذ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں انصاف کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے تمام متعلقہ طبقوں کی مشاورت کے بعد قومی عدالتی پالیسی مرتب کی گئی ہے۔ اس پالیسی کا اہم ہدف عدلیہ کو مضبوط کرنا ہے تاکہ عدلیہ ادارتی اور انتظامی خودمختاری کو استعمال کرے تاکہ ججز مقدمات کا فیصلہ منصفانہ اور شفاف انداز میں مکمل آزادی سے کریں۔ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں نہیں کہ وہ رائج الوقت قوانین میں ترامیم کرے تاہم پالیسی کے تحت مقدمات میں درپیش تاخیر کو کم کرنے‘ دیوانی اور فوجداری مقدمات کا فیصلہ جلد کرنے اور ملزم کے منصفانہ حقِ سماعت کو شفاف اور یقینی بنانے کے لئے مختلف ضروری اقدامات کئے گئے ہیں۔ آئین و قانون کی بالادستی کا احترام کرنے والے ممالک میں مقدمات کی منصفانہ سماعت تسلیم شدہ حق ہے۔ میں پُراعتماد ہوں کہ اس حق کے عملی نفاذ کی بدولت انصاف تک سب کی رسائی کے حق کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے بنیادی حقوق کے اس پہلو کی اہمیت کو اُجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ان کے لئے انتہائی خوشی اور فخر کی بات ہے کہ وہ پاکستانی اور بیرونی ممالک سے آئے ہوئے قانونی برادری کے ممتاز شرکا کی تقریب سے خطاب کر رہے ہیں۔ بے شک بیرونی ممالک سے آنے والے وفودکی انصاف کے اعلیٰ مقصد کے لئے اُٹھائی گئی تکلیف قابلِ قدر ہے۔ انصاف ہر قوم کے قانون کو آخری منزل بناتا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور زمین پر ان کے حقوق کی حفاظت کے لئے ماضی بعید سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کائنات کے وجود کے رنگوں کو محفوظ کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگوںکے حقوق کی حفاظت کی جائے اور انصاف بِلاخوف اور غیر جانبدارانہ کیا جائے۔ اگر لوگوں سے قانون کے مطابق مساوی سلوک نہ ہو تو اُنکے حقوق متاثر ہوں گے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا رُ جحان ہوگا جو کہ تمام معاشرے کے لئے مہلک ثابت ہو گا اور حکومت کے لئے امن و امان قائم رکھنا مشکل ہو گا اور حکومتی رٹ قائم رکھنے میں مسائل آئیں گے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ وکلا عدلیہ کے حصہ ہیں فیئر ٹرائل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے قانون اور اصولوں کو جب رائج کیا تو اس کے حوالے سے پیش آنے والی مشکلات کو نہیں سوچا اگر یہ سوچا جاتا تو آج فیئر ٹرائل کے حوالے سے مسائل کم ہوتے۔ یہ ہماری مشکل ہے کہ ہمارے جج صاحبان روزانہ ڈیڑھ سو سے زیادہ کیس سنتے ہیں لیکن اس کے باوجود کیسوں کی تعداد کم نہیں ہو رہی۔ ماتحت عدالتوں میں ججوں کی چار سو اسامیاں خالی ہیں ان پر پانچ ہزار امیدواروں نے درخواستیں دیں اور امتحان دیا جن میں چھ سو پاس ہوئے انٹرویو کے دوران یہ تعداد کم ہو جائے گی۔ اگر مقدمات کا فیصلہ پانچ پانچ سال نہیں ہو گا تو فیئر ٹرائل کا تصور کہاں جائے گا ہمار ا کام انصاف فراہم کرنا ہے، اصل سٹیک ہولڈر سائل ہیں۔ ہمارے ریاستی ادارے اپنی ایمانداری سے اپنے فرائض سر انجام دیں تو عدالتوں کا بوجھ کم ہو جائے گا یہاں اداروں کا کام عدلیہ کر رہی ہے۔ ہمارے وسائل محدود ہیں ملک کے استحکام کے لیے ہر ادارے کا اپنا اپنا کام کرنا ہو گا ۔ سپریم کورٹ بار کی سابقہ صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ عوام کو کراچی میں انسداد دہشت گردی قانون کے تحت پولیس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اب پولیس نے فیصلہ کرنا ہے کہ سڑک پر چلنے والا دہشت گرد ہے یا کہ عام شہری ہے ۔ آئین ہمیں جو حقوق دیتا ہے پارلیمنٹ قانون سازی کر کے ان حقوق سے پہلو تہی کر رہی ہے اگر ریاست قاتل کے طور پر کام کرے گی تو وقتی طور پر امن ہو گا لیکن مستقبل میں اس کے بھیانک نتائج برآمد ہو ں گے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر اسرار الحق میاں نے کہا کہ فیئر ٹرائل بنیادی حق ہے۔ مقدمات میں فیئر ٹرائل نہیں ہو گا تو انصاف نہیں ہو گا اور جہاں انصاف نہ وہاں مہذب معاشرہ اور پر امن ریاست قائم نہیں ہو سکتی۔ کانفرنس سے بھارت، برطانیہ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے منذوبین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فیئر ٹرائل کا تعلق انسانی بنیادی حقوق سے ہے۔ تمام ممالک کے جیورسٹ باہمی تبادلہ خیال اور اس کی کانفرنسز کا انعقاد کر کے ایک دوسرے کے تجربے سے فائدہ اتھا سکتے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی وکلا کی طرف سے عدلیہ بحالی تحریک کو سراہا۔ 

مزیدخبریں