پاکستان نے ملا برادر کو رہا کردیا‘ ہمیں رسائی حاصل ہونی چاہئے : افغان وزارت خارجہ

اسلام آباد + کابل + واشنگٹن (ایجنسیاں) پاکستان نے افغان طالبان رہنما کے ملاعمرکے بعد دوسرے اہم ترین رہنما ملا عبدالغنی برادر کو رہا کر دیا۔ افغان وزارت خارجہ کے ترجمان موسیٰ زئی نے کہا ہے کہ اگر ملا برادر پاکستان ہی میں رہتے ہیں تو بھی افغان حکام کو ان تک رسائی لازماً حاصل ہونی چاہئے۔ اسکے علاوہ انکا کوئی ایسا محفوظ اور طے شدہ پتہ بھی ہونا چاہئے جو افغان حکام کے علم میں ہو جبکہ افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل نے ملا برادر کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہرکی ہے کہ یہ رہائی طالبان کیساتھ مذاکرات اور قیام امن کے عمل میں اہم کردار ادا کریگی۔ افغان حکام نے ملا برادر کو امن کا سفیر قرار دیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز چودھری نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہا کہ ملا عبدالغنی برادر کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ملا برادر کو افغان مصالحتی عمل میں آسانی پیدا کرنے کیلئے رہا کیا گیا ہے جبکہ پاکستانی انٹیلی جنس اور سکیورٹی اہلکاروں نے بھی ملا برادر کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے اس حوالے سے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ اہلکاروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی میڈیاکو بتایا کہ ملا برادر کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ طالبان کے اس رہنما کو کہاں حراست میں رکھا گیا تھا یا وہ اپنی رہائی کے بعد اس وقت کہاں ہیں۔ جمعہ کو پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری ایک مختصربیان میں نے اعلان کیا تھا کہ ملا برادر کو ہفتے کے روز اس لئے رہا کر دیا جائے گا کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں مدد کی جاسکے۔ افغان حکومت کافی عرصے سے پاکستان سے مطالبہ کر رہی تھی کہ ماضی میں طالبان کا نائب سربراہ رہ چکنے والے ملا برادر کو رہا کیا جائے۔ ملا برادر کو پاکستانی حکام نے مبینہ طور پر امریکی سی آئی اے کے ایجنٹوں کیساتھ ملکر کی گئی ایک کارروائی کے نتیجے میں 2010ء میں کراچی سے گرفتار کیا تھا۔ افغان امن کونسل کے ایک رکن محمد اسماعیل قاسم یار نے ملا برادر کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو قوی امید ہے کہ ملا برادر کی رہائی طالبان کے ساتھ مذاکرات اور قیام امن کے عمل میں اہم کردار ادا کرے گی جبکہ طالبان دور حکومت میں افغانستان کے وزیر خارجہ رہنے والے وکیل احمد متوکل نے بھی ملا برادر کی رہائی کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان کو ملا برادر کے رہا کیے جانے کے بعد اس کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ متوکل نے کہاکہ پاکستانی حکام کو ملا برادر کو یہ اجازت دینا ہو گی کہ وہ طالبان رہنماؤں کیساتھ رابطہ کر سکیں اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں معاون ثابت ہو سکیں۔ دریں اثناء افغان ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام اور بعض افغان سکیورٹی ماہرین نے پاکستان کی جانب سے طالبان قیدیوں کی رہائی پر تشویش ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مناسب شرائط اور میکنزم کے بغیر قیدیوں کی رہائی کے باعث وہ آسانی سے دوبارہ جنگ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ملا برادر سے پہلے پاکستان گذشتہ ایک سال کے دوران طالبان کے 33 دیگر قیدیوں کو بھی رہا کر چکا ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے بھی ملا عبدالغنی برادری کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملا برادر کی رہائی افغان حکومت کی جانب سے مسلسل درخواست پر عمل میں آئی ہے، امید ہے کہ اس سے افغان امن عمل میں مدد ملے گی۔ کے ترجمان ایمل فیضی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ملا برادر کی رہائی سے متعلق پاکستانی حکومت کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں اور امید ہے کہ اس سے افغان امن عمل میں مدد ملے گی۔ نجی ٹی وی کے مطابق ملا عبدالغنی برادر کراچی میں اپنی فیملی کے ساتھ رہیں گے ،ملا برادر کو افغانستان سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جائیگا۔ ہفتہ کو نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے واضح کیا کہ ملا برادر کو افغانستان کے حوالے نہیں کیا جائیگا۔ انکی مرضی ہو گی وہ جہاں چاہیں رہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...