”جمہوری قوتیں آئین اور پارلیمنٹ کو درپیش خطرات کو شکست دینے کیلئے متحد ہیں“ کے عنوان سے قرارداد منظور کرکے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ مختلف پارلیمانی پارٹیوں کے لیڈروں نے بہت عُمدہ تقریریں کیں اور وزیراعظم نوازشریف کی تقریر تو خاصے کی چیز تھی۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ”عوام کو بغاوت کیلئے اُکسایا جا رہا ہے‘ لیکن ہم کسی لانگ مارچ یا شارٹ مارچ کو جمہوریت پر کلہاڑا نہیں چلانے دیں گے۔“ اس سے قبل وزیراعظم نے نمازِجمعہ پارلیمنٹ ہاﺅس کی جامع مسجد میں ادا کی۔ نماز کے بعد خطیب نے جب دعا کی کہ ”یا اللہ ! پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دے اور اسے استحکام نصیب فرما!“ تو وزیراعظم سمیت نمازِ جمعہ میں شریک ارکانِ پارلیمنٹ نے بلند آواز میں آمین کہا۔
”کُلہاڑا“ .... لکڑی چیرنے یا پھاڑنے کا ایک آلہ / ہتھیار ہوتا ہے۔ چھوٹے کُلہاڑے کو کُلہاڑی کہتے ہیں۔ جمہوریت اگر لکڑی کی ہو تو اُسے بلیڈ‘ چُھرے‘ اُسترے‘ تلوار اور تیشے سے چھیل کر کمزور یا بدصورت بنایا جا سکتا ہے‘ لیکن اِن ننھے مُنے ہتھیاروں میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ یہ جمہوریت کو جڑ سے اُکھاڑ سکیں۔ کُلہاڑا یا کُلہاڑی دُوبُدو لڑائی میں بھی کام آتی تھی / ہے۔ دُشمن دار لوگ باگ ہر وقت اپنے پاس کُلہاڑا یا کُلہاڑی رکھتے تھے / ہیں۔ کُلہاڑی کو انگریزی میں ''HATCHET'' کہتے ہیں اور "HATCHET MAN'' کرائے کے قاتل کو۔ علامہ القادری کے جو پیروکار دور دراز سے اسلام آباد میں دھرنا دینے آئے ہیں‘ غیرملکی ذرائع ابلاغ نے انہیں ”کرائے کے انقلابی“ کہا ہے۔ اِن لوگوں کے ہاتھوں میں کُلہاڑے یا کُلہاڑیاں ہی نہیں بلکہ ڈنڈے بھی ہیں۔
علامہ القادری اپنے دائیں یا بائیں ہاتھ میں ڈنڈا نہیں رکھتے۔ اس لئے کہ موصوف اپنی زبان سے ڈنڈے بلکہ کُلہاڑی کا کام لیتے ہیں۔ جو شخص زبان یا الفاظ سے مخالف پر یلغار کرتا ہے اُسے "HATCHET JOB'' کہتے ہیں۔ خواہ وہ شخص اپنے لئے یہ جاب کرے یا کسی دوسرے کیلئے۔ یہ اصطلاح جناب عمران خان پر بھی صادق آتی ہے‘ لیکن "HATCHET FACED" کی اصطلاح ان پر خوب پھبتی ہے جس کا مفہوم ہے غصے میں بھرا اور تیکھے نقوش والا۔ایک ساٹھے پاٹھے عمران خان جب طیش میں آکر وزیراعظم کو ”اوئے نوازشریف“ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں تو تاثر یہ ملتا ہے کہ گویا وزیراعظم خان صاحب کی دوسری شادی میں رخنہ ڈال رہے ہیں۔
وزیراعظم نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ ”شاہراہِ دستور کا تقدس بحال کرانا کل مشکل تھا نہ آج ہے‘ لیکن دھرنوں میں بچوں اور عورتوں کی خاطر تحمل کیا۔ یہ اخلاقیات کا مسئلہ ہے۔ علامہ القادری اور عمران خان کو کم از کم اس بات پر تو داد دینا چاہئے کہ انہوں نے نہ صرف حکومت بلکہ پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ہاتھ باندھ دیئے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے بعد اسلام آباد میں پاکستان عوامی تحریک کے دو کارکن (ممکنہ کرائے کے انقلابی) قتل ہوئے تو وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ پنجاب اور وفاقی وزراءکے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہو گیا۔ خدانخواستہ کسی ”انقلابی کفن بردار بچے یا نیا پاکستان کی علم بردار خاتون ‘کو گزند پہنچی تو وزیراعظم کے خلاف قتل کا ایک اور مقدمہ؟ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی اور ابرارالحق پنجابی کی یہ ”بولی“ مل کر گائیں کہ
ٹانگا آگیا کچہریوں خالی!
تے سجناں نوں قید بول گئی!
علامہ القادری اور عمران خان نے اپنے اپنے بچوں کو تو مامون و محفوظ کر دیا اور ان کی انشورنس بھی کرا لی‘ لیکن دوسروںکے شیرخوار بچوں کو اپنے انقلاب اور نیا پاکستان کا ایندھن بنا دیا۔ پرانے زمانے میں غیرمہذب قومیں یہی کہا کرتی تھیں۔ تاتاری اور منگول جب کسی شہر کو فتح کر لیتے تھے تو کسی دوسرے دشمن کے خلاف میدانِ جنگ میں اترتے وقت مفتوح قبیلوں کے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو اپنی فوج کے آگے رکھتے تھے۔ علامہ القادری اور اب تو عمران خان بھی کسی تاتاری اور منگول جنگجو بردار کا ”دوسرا جنم“ لگتے ہیں۔ تاتاری اور منگول سردار مفتوح قبیلوں کے لوگوں کی کھوپڑیوں کے مینار بھی تعمیر کیا کرتے تھے۔ میں عمران خان پر تو اب بھی حسنِ ظن رکھتا ہوں‘ لیکن علامہ القادری تو وزیراعظم نوازشریف‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اور ان کے ساتھی وزراءکو پھانسی دینے کا پھندا لہرا لہرا کر داد وصول کرتے ہیں اور وہ اعلان کر چکے ہیں کہ ”میں پاکستان کے ہر کرپٹ شخص کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا۔ خواہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہی کیوں نہ ہو۔“ کیا اس شخص کو جیل یا پاگل خانے میں نہیں ہونا چاہئے تھا۔
اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا پاکستان میں جمہوریت ہے؟ اور اگر ہے تو اس نے عوام کو کیا دیا؟ سابقہ وفاقی وزرائے خزانہ کی طرح جناب اسحاق ڈار بھی بڑے فخریہ بیان کرتے ہیں کہ ”جی ہاں! پاکستان میں 50 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں!!!“.... قائداعظمؒ تو اس طرح کا پاکستان نہیں چاہتے تھے۔ اُن کا خواب تو پاکستان کو جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت بنانا تھا۔ قائداعظمؒ کا یہ خواب کسی بھی حکمران نے شرمندہ¿ تعبیر نہیں کیا اور نہ ہی وہ خود شرمندہ ہوا۔ سب سے بڑا دھوکہ ”قائدِ عوام اور فخرِایشیا“ جناب ذوالفقا علی بھٹو نے دیا۔ انہوں نے ”غریبوں کے حق میں انقلاب“ لانے کا وعدہ کیا جو ”محبوب کا وعدہ“ ثابت ہوا۔ فوج کا سربراہ جب اقتدار پر قبضہ کرتا ہے تو وہ تو ”انقلاب“ کا وعدہ نہیں کرتا۔ اس سے کیا گلہ؟
فوج کا سربراہ کبھی اپنی مرضی سے اقتدار سنبھال لیتا ہے اور کبھی اُسے جمہوریت پسند ”سیاستدان“ کی طرف سے دعوتِ اقتدار دی جاتی ہے۔ پھر وہی ”جمہوریت پسند“ فوجی آمرکے دربار میں ”راگ درباری“ پیش کرکے آداب بجا لاتے ہیں اورجن جہوریت پسندوں کو دربار تک رسائی نہ ہو سکے تو وہ ہر درباری کی مذمت میں مرزا غالب کا یہ شعر پڑھ کر یا گا کر خود کو تسلی دیتے ہیں کہ
بنا ہے شہہ کا مصاحب‘ پھر سے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں‘ غالب کی آبرو کیا ہے
وزیراعظم نوازشریف کے دربار میں جنرل پرویزمشرف کے کئی درباری موجود ہیں۔ یہ پیشہ ور درباریوں کا کمال ہے یا کسی اور کا زوال؟ جناب نوازشریف نے 28مئی 2013ءکو ”یومِ تکبیر پر“ مجاہدِ تحریک پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی کی صدارت میں ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے پہلے دور میں ایٹمی دھماکہ کیا تھا اور اب ”معاشی دھماکہ“ کروں گا۔“ 28 ستمبر 2014ءکو جناب وزیراعظم کے اس وعدے کو ایک سال اور 4 ماہ ہو جائیں گے۔ وہ دھماکہ کب ہوگا؟ شاید وزیراعظم کو بھی معلوم نہیں۔ جب سے دھرنوں کی بدعت شروع ہوئی ہے‘ وفاقی وزراءاور پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے قائدین بھی‘ غربت‘ بیروزگاری‘ مہنگائی اور بیماری دور کرنے کیلئے کوئی بھی نسخہ ایجاد نہیں کر سکے۔
وزیرخزانہ جنابِ ڈار نے 9 جون کو راولپنڈی میں انٹرنیشنل میلاد کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”مجھے داتا گنج بخش“ نے "ON DEPUTATION" وزیرخزانہ بنا کر اسلام آباد بھیجا ہے۔“ حضرت داتا صاحب کی دُعا اور برکت سے اُن کے لنگر سے ہر روز ہزاروں لوگ کھانا کھاتے ہیں۔ کیا اسحاق ڈار صاحب نے اس نکتے پر غور کیا ہے؟ وزیراعظم صاحب کا یہ عزم خوب ہے کہ وہ ”جمہوریت پر کُلہاڑا نہیں چلنے دیں گے۔“ لیکن غربت کی لکیر سے نچے زندگی بسر کرنے والے 50 فیصد لوگوں کو ”کُلہاڑا جمہوریت“ کب تک چیرتی اور پھاڑتی رہے گی؟