”وزیراعظم“ بلاول بھٹو زرداری؟

وزیراعظم نواز شریف نے حکم دیا ہے کہ پنجاب کے سیلاب زدگان کے دورے پر پنجاب آئے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو سربراہ مملکت کا پروٹوکول اور سکیورٹی دی جائے۔ دھرنے والے نعرے اپنے ہی دوستوں کے جلسوں میں گونجتے ہوئے سن کر نواز شریف کچھ ”بے نیاز“ سے ہو گئے ہیں۔ وہ بلاول کے لئے کہنا چاہتے تھے کہ انہیں سربراہ حکومت کا پروٹوکول اور سکیورٹی دی جائے۔ سربراہ مملکت صدر ہوتا ہے۔ صدر صدر ہوتا ہے مگر صدر ممنون ”صدر“ زرداری میں فرق ہوتا ہے۔ ”صدر“ زرداری سابق ہو کر بھی صدر ہیں۔ میں انہیں کبھی سابق صدر نہیں لکھتا۔ وہ بلاول کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ بلاول کو بلاول بھٹو زرداری بھی انہوں نے ہی بنایا ہے۔ پھر یہ بات پیپلز پارٹی اور میڈیا میں عام ہوئی اور عام لوگوں میں زبان زدعام ہوئی۔ اب تو بختاور اور آصفہ بھی پہلے بھٹو ہیں اور پھر زرداری ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے نعرے لگتے تھے۔ اب بھی لگتے ہیں جبکہ نواز شریف وزیراعظم ہیں۔ عمران کو وزیراعظم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ملتان بھی راجہ پرویز اشرف اور دوسرے لوگ کہہ رہے تھے کہ لوگوں کے پاس شہید بے نظیر بھٹو کا بیٹا آیا ہے۔ ماں کی نسبت سے جو لوگ مشہور ہوئے۔ وہ امر بھی ہوئے۔ ہمارے پڑوسی ملک میں بھی پنڈت نہرو کی سیاسی وراثت بیٹی سے چلی ہے۔ اندرا گاندھی کے بعد راجیو گاندھی اور اب راہول گاندھی۔ ان کے ساتھ نہرو کی نسبت بھی نہیں ہے کہ گاندھی کی نسبت بھی بہت محبوب اور مضبوط ہے۔ ”صدر“ زرداری کی کامیاب سیاست کے بعد اب ان کے نام کی نسبت بھی اہم ہوتی جا رہی ہے۔
سیلاب زدہ علاقوں میں ستم رسیدہ بوڑھی عورتوں نے بہت پیار کیا کہ بلاول شرما گئے۔ وہ جیالیاں تھیں اور بھٹو کے نواسے کو پیار کر رہی تھیں۔ بلاول ملتان میں سابق وزیراعظم گیلانی کے گھر گئے۔ ”صدر“ زرداری بھی خاص طور پر گئے تھے۔ بلاول کے ساتھ دوسرے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی تھے اور بہت کھسیانے کھسیانے تھے۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ کھمبا نوچنے کا انہیں بہت تجربہ ہے۔ وہ گیلانی کابینہ میں بجلی کے وزیر تھے۔ ایک دوسری ضرب المثل عرض ہے۔ سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔ گیلانی صاحب کا دکھ بہت ہی بڑا ہے۔ انہوں نے نہ تو راجہ صاحب سے ہاتھ ملایا اور گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹانے کے باوجود اپنے ساتھ گاڑی میں نہ بٹھایا اور بلاول کو لے کے ملتان ائر پورٹ پر چلے گئے۔
بلاول بھٹو نے اچھا کیا کہ پنجاب کے سیلاب زدگان ستم رسیدگان کے پاس آئے۔ ملتان کے پیپلز پارٹی کے سیاستدانوں کو بھی ان کے قریب ہونے کا موقع ملا۔ وہ کپڑوں سمیت اور لانگ بوٹوں کے بغیر بپھرے ہوئے پانیوں میں اتر گئے۔ ان کا بہت والہانہ استقبال ہوا۔ جس طرح جیالیاں اور جیالے ان کے ”آل دوالے“ ہو گئے وہ دیکھنے کے قابل مناظر تھے۔ اگر الیکشن 2013ءمیں بلاول کو سکیورٹی کے ڈر سے دبئی نہ بھجوایا جاتا اور وہ پنجاب میں انتخابی مہم کو خود چلاتے۔ جلسوں سے خطاب کرتے۔ وہ باتیں اچھی کرتے ہیں۔ ان کے جیسے بیانات بڑے بڑے سینئر سیاستدان بھی نہیں دیتے۔ پارلیمنٹ میں بھی سیاستدانوں کے خطاب اہلیت قابلیت کے حوالے سے ناقابل بیان ہیں۔ مگر ابھی تک بلاول کو پوری طرح تقریر کرنا نہیں آیا۔ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی اردو کمزور تھی مگر اپنی کمزوری کو اپنی طاقت بنانا مشہور آدمیوں کی معرکہ آرائی ہے۔ لوگ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو شوق سے سنتے تھے۔ مگر وہ ابھی اسے شوق فراوانی نہیں بنا سکتے۔ تقریر کے دوران جوش میں آنا اور جذبات کے اظہار میں بہت آگے نکل جانا ٹھیک ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ غلطی کہاں ہو رہی ہے۔ لوگ بلاول کے لئے بڑی امیدیں رکھ کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگلا وزیراعظم ان کے خیال میں وہی ہونا چاہئے اور ویسے بھی موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں باری بھی ان کی ہے۔ فیصلہ ”صدر“ زرداری نے کرنا ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید تو دوبارہ وزیراعظم بنی تھیں۔ ”صدر“ زرداری نے ایک ہی دور حکومت میں دو وزیراعظم بنا کے دکھا دیے۔ مجھے اعتراض ”صدر“ زرداری کے انتخاب پر ہے۔ ان کی اہلیت صلاحیت اور طاقت پر نہیں ہے۔ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد وہ جسے چاہیں ہٹا سکتے ہیں۔ جبکہ گیلانی اور راجہ نے کبھی وزارت عظمیٰ کا خواب بھی نہ دیکھا ہو گا۔ کہتے ہیں زرداری صاحب دوستوں کے دوست ہیں۔ یہ بالکل ٹھیک بات ہے۔ مگر دوست وہ ہے جو ”صدر“ زرداری کو پسند آئے اور ان کے کام آئے۔ وہ دشمنوں کے دشمن بھی ہیں۔ ان کی دوستداریاں حیران کن ہیں اور دشمنیاں پریشان کن ہیں۔ دشمنوں کی طرح دوستوں کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ ہمارے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کو پیدا بے نظیر بھٹو نے کیا مگر اسے بنایا ”صدر“ زرداری نے اور اس طرح بنایا کہ وہ خود بھی حیران ہوں گے۔ بلاول زرداری کو انہوں نے بلاول بھٹو زرداری بنا دیا۔ یہ ایسا کمال ہے اور ایسے کئی کمال ہیں جو انہوں نے کر دکھائے۔ انہوں نے کمال کر دیا ہے۔ مجھے ان سے کچھ اختلاف بھی ہے مگر اعتراف بھی بہت ہے۔ اختلاف کرنے کا حق اسے ہے جو اعتراف کرنا بھی جانتا ہو۔
مجھے بلاول کی کئی باتیں پسند آئیں مگر یہ بات پسند نہ آئی۔ ”مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں“ الطاف حسین نے تو نئے صوبوں کی بات پاکستان کے حوالے سے کی ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے اسد عمر نے اپنی طرف سے یہ کہا کہ لسانی بنیادوں پر صوبے نہ بنائے جائیں۔ انتظامی بنیادوں پر بنائے جائیں۔ سندھ سندھی بولنے کے حوالے سے ہے۔ بلوچستان بلوچی، خیبر پختونخواہ پشتو اور پنجاب پنجابی زبان کے حوالے سے ہے۔ مگر تب سیاست میں مفاد پرستی اور شرپسندی نہ تھی۔ پہلے یہ باتیں پازیٹو تھیں۔ اب نیگٹو ہو گئی ہیں۔ اب سیاستدان نیگیٹو ہو گئے ہیں۔ ن لیگ کی ماروی میمن نے پنجابی بلوچی پشتو، سندھی سرائیکی وغیرہ وغیرہ کو قومی زبانیں بنانے کی تجویز دی تھی جو پارلیمانی کمیٹی نے مسترد کر دی۔ سابق ق لیگی ممبر اسمبلی اب ن لیگی ممبر اسمبلی نے یہ سازشیں کس کے کہنے پر کی۔ تجویز میں قومی زبان اردو کا نام بھی کہیں نہیں تھا۔ لسانی بنیادوں پر سازش تو یہ ہے۔ الطاف حسین نے کہا ہے کہ صوبے پورے پاکستان میں بنیں گے۔ اور نئے صوبے بننا چاہئیں مگر انتظام مخلص اور محب وطن لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ انتظامی بنیادوں پر صوبے اس صورت میں کامیاب ہوں گے کہ انتظام ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو انتظام کرنا جانتے ہوں۔ انتظام کو الزام، انتقام اور انعام کے لئے استعمال نہ کریں۔
بلاول نے پنجاب میں یہ بھی کہا ہے کہ مرسوں مرسوں پنجاب نہ ڈیسوں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستانی ہونے کے لئے پنجابی ہونا بھی ضروری ہے۔ پنجاب نہ دینے کا نعرہ لگانے والے پہلے پنجاب کو اپنے سینے سے تو لگائیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے پنجاب کو بھلا دیا ہے۔ تقریباً سارے پنجابی جیالے کچھ کچھ اداس ہیں۔ نوید چودھری، منور انجم، شوکت بسرا، فائزہ ملک اور عظمیٰ بخاری وہ تو مسلم لیگ ن میں چلی گئی ہے۔ کبھی رانا ثناءاللہ بھی پیپلزپارٹی میں تھے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ منظور وٹو بھی اداس ہیں۔ وہ کبھی ن لیگ میں تھے۔ سنا ہے کے یوسف رضا گیلانی مسلم لیگ ن میں جانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں کون روک رہا ہے۔ شاید وہ خود اپنے آپ کو روک رہے ہیں۔ میں تو بلاول بھٹو زرداری کی زبان سے مرسوں مرسوں پاکستان نہ ڈیسوں کا نعرہ سننا چاہتا ہوں۔ پھر مجھے یہ نعرہ مزید اپنا اپنا لگے گا۔ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں میں یہ نعرہ پوری طاقت سے لگانا چاہتا ہوں کہ میری آواز سارے پاکستان میں سنی جائے۔ سندھ پاکستان میں ہے بلکہ سندھ پاکستان ہے۔ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں ۔ بلاول کے والد محترم ”صدر“ زرداری نے غم و غصے سے پاگل ہو جانے والے سندھیوں کے درمیان کھڑے ہو کر کہا تھا۔ پاکستان کھپے پاکستان کھپے۔ وہ صدر پاکستان ہوئے۔ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم تھی۔ بلاول نے یہ بھی کہا اور اچھا لگا۔ گھنسوں گھنسوں پورا کشمیر گھنسوں۔ وزیراعظم بننے کے بعد بھی یہ نعرہ لگائیں گے؟۔

ای پیپر دی نیشن