شیخ عبداﷲ کا ”نیا کشمیر“ اور عمران کا ”نیا پاکستان“

پاکستان میں سیاست کے جو انداز عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مل کر اختیار کئے ہیں۔ ان سے دو لیڈروں کی یاد آجاتی ہے ان میں ایک تو کشمیر کے لیڈر شیخ عبداﷲ تھے جن کی وجہ سے کشمیر کی آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا اور دوسرے ہندوستان کے گاندھی تھے جو ہندوستانی عوام کو سول نافرمانی اور بائیکاٹ پر اکسایا کرتے تھے اور قائد اعظم محمد علی جناح ان کی شدت سے مخالفت کیا کرتے تھے۔ عمران خان ‘ شیخ عبداﷲ کی طرح ہی کے پی کے میں اقتدارمیں بھی ہیں اور افراتفری بھی پھیلا رہے ہیں۔ کشمیر میں شیخ عبداﷲ کے افضل بیگ مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ پبلک ورکس منسٹر تھے جبکہ مسلم کانفرنس نے وزیر بننے کی اس دوڑ سے بائیکاٹ کیا تھا آج عمران خان کے ساتھ الیکشن کے نتائج پر معترض کے پی کے وزیر اعلیٰ بھی چھٹی منا رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی نے مسلم کانفرنس کی طرح الیکشن میں دھاندلی کے نتیجے میں اقتدار لینے سے انکار نہیں کیا تھا۔ افضل بیگ نے بھی تمام کوآپریٹو سٹورز پر اپنے خاندان کے افراد بھرتی کر لئے تھے۔ کے پی کے کے وزیراعلیٰ نے بھی یہی کام کیا ہے اس کے علاوہ آج کے پی کے میں آئی ڈی پیز کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ عمران خان کی طرح ہی نیشنل کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ”نیا کشمیر“ کا نعرہ بلند کیا گیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح عمران خان قائد اعظم کے پاکستان میں ”نیا پاکستان“ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ قائد اعظم سے بڑے لیڈر ہیں ؟ شیخ عبداﷲ کے ”نیا کشمیر“ کے نعرہ میں بھی عدل و انصاف‘ تعلیم‘ صحت اور شہری طبقہ کے لئے نہ جانے کیا کچھ شامل تھا۔ لیکن ان سب اقدامات میں ”اصلاحات“ کی آڑ میں پس پردہ موجود گہری سازش کا ادراک مسلمانوں کو ہو رہا تھا لہذا شیخ عبداﷲ کے ”نیا کشمیر“ کا منشور لوگوں کی نظروں میں ایک مذاق اور تمسخر بن کر رہ گیا۔ عمران خان کا نعرہ ”نیا پاکستان“ بھی قائد اعظم کے پاکستان“ میں ایک مذاق اور تمسخر کی طرح محسوس ہوتاہے اور آج قائد اعظم کے پاکستان کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اس پر آنسو ہی بہائے جا سکتے ہیں کہ جب ایک نواز شریف کے استعفے کے علاوہ ساری باتیں مان لی گئی ہیں تو پھر الیکشن میں اصلاحات اور نظام میں بہتری کے اقدامات کے بعد اگلے الیکشن کے انعقاد کے بعد پرامن انتقال اقتدار کے مرحلے کو کیوں تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے اور کیوں قوم کو بدنظمی‘ افراتفری اور سول نافرمانی کی ترغیب دی جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہندوستان میں گاندھی کبھی سیتہ گرہ تحریک اور کبھی بائیکاٹ کر کے افراتفری اور انتشار پھیلانے کے راستے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ لیکن قائد اعظم محمد علی جناح ان کے ان رویوں کی شدید مخالفت کر کے مسلمانوں کو سمجھایا کرتے تھے کہ اس قسم کی باتیں مسلمانوں کے اتحاد اور قوت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ حتیٰ کہ ہندوستان کی تاریخ کے اس زمانے میں بھی بڑے بڑے علماءاور جید مذہبی رہنما تک گاندھی کی باتوں میں آ گئے تھے۔ لیکن قائد اعظم جسے عظیم لیڈر کی قیادت میں درست رہنمائی کے سنہری اصولوں پر چل کر اس قوم نے منزل مراد حاصل کر لی تھی۔ ایک ایسی منزل مراد جس کے ساتھ آج دشمنی کی جا رہی ہے۔ کیونکہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری دونوں کو ملک میں موجود سیلاب کی صورتحال کو دیکھ کر اس ملک اور قوم کے لئے اپنی ساری سرگرمیوں معطل کر کے مشکلات میں گھری عوام کی مدد کے لئے نکلنے کا اعلان کر دینا چاہئے تھاکل سٹیٹ بنک کے بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ملک اور قوم کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کے رہنما¶ں اور لیڈروں کے لئے یہ زیادہ لمحہ فکریہ ہے کہ سیاسی بحران اور سیلاب کی تباہ کاریاں اس ملک کی معیشت کےلئے خطرہ ہیں۔ جبکہ 2013ءکے آخر میں صورتحال یہ آ چکی تھی کہ بہتری کی امید کی جا سکتی تھی۔اب عمران خان چاہیں تو اپنے زیادہ تر مطالبات کو منوانے کے بعد انتظار کریں کیونکہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اب ننگے حمام میں کون ہو گا جو دھاندلی کرے گا لہذا یہ وقت ملک کی معیشت کو بچانے کا ہے نہ کہ افراتفری پھیلانے کے لئے مناسب وقت ہے اور پھر سچی بات تو یہ بھی ہے کہ پاکستانی عوام کے مسائل کا حل پارلیمنٹ میں لڑجھگڑ کر تلاش کریں لیکن پاکستانی عوام کے مسائل کا حل ”لندن“ میں بیٹھ کر اور ”پلان“ بنا کر نہیں تلاش کیا جا سکتا۔ جس کے بارے میں عمران خان کی پارٹی کے اراکین بھی آگاہ نہیں تھے۔ یہ ہو سکتا تھا کہ پی ٹی آئی کے بہت سارے اراکین ڈاکٹر طاہر القادری کی پی ٹی اے کے ساتھ چلنا مناسب نہ سمجھتے یا پھر ”پی اے ٹی“ کے لوگ عمران کے لوگوں کے ساتھ چلنا مناسب نہ سمجھتے کیونکہ دونوں جلسوں میں بیٹھی کر عوام میں زمین آسمان کے فرق کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف اذانیں اور نمازیں ادا ہو رہی ہوتی ہیں اور دوسری طرف آرائش و زیبائش سے منور روشن چہرے رقص کر رہے ہوتے ہیں اور چیونگم چبا رہے ہوتے ہیں تو ان تضادات کے ساتھ یقیناً ”لندن پلان“ نے دونوں کو ساتھ بٹھایا جا رہا ہے۔ اس لئے خدارا پاکستان میں شیخ عبداﷲ اور گاندھی کی سیاست کے انداز اختیار کرنے کی بجائے ”قائد اعظم کی مثبت سیاست کو فروغ دے کر قائد اعظم کے پاکستان کو بچایا جائے۔ اپنا خیال رکھیئے گا۔

ای پیپر دی نیشن