ملکی سیاست میں ڈبل شاہوں کا کردار

پورے ملک میں ایک ہی تاریخوں پر الیکشن کرائے جانے کی بجائے ہر صوبہ میں علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہو رہا ہے۔ بلدیاتی الیکشن صوبہ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں پہلے ہی منعقد ہو چکے ہیں۔ اب صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب میں بھی یہ الیکشن مکمل ہونے کو ہیں۔ ہر معاشرے میں اچھے بُرے لوگ موجود ہیں۔ کرپشن بھی شاید جس قدر کسی سے ہو سکتی ہے ہو رہی ہے۔ پاکستان کیلئے ڈویلپمنٹ کے کاموں اور ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے غیر ممالک سے مشینری اور دیگر اشد ضروری سامان خریدنے والے آفیسروں پر کک بیک کے نہ صرف الزامات لگ چکے ہیں بلکہ تحقیقات سے ایسے الزامات چندسیاست دانوں اور بعض سرکاری اہل کاروں پر ثابت بھی ہو چکے ہیں ۔اس سے مراد یہ ہے کہ غیر ممالک کے لوگ ہمارے لوگوں کو مشینری وغیرہ خریدنے کے بدلے بطور رشوت نقد رقوم پیش کرتے ہیں تو ہمارے لوگ اُن سے ہی خریداری کرتے ہیں۔ ورنہ ہمارے لوگ خود توکسی غیر ملکی سے کچھ نہیں مانگ سکتے۔ یہ المیہ نہ صرف پاکستان کا ہے بھارت اور افریقہ کے کئی ممالک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری اہلکاروں پر ایسے الزامات پہلے ثابت بھی ہو چکے ہیں بلکہ امریکہ، جرمنی اور جاپان کے کارخانوںسے خریدے گئے سازوسامان پر بھی کک بیک لوگوں کو ملی ہے۔ ”مشتے از خرمن کے مترادف“ بھارت کے ایک صوبہ کے وزیراعلیٰ پر صوبہ کی گائے(گاﺅ ماتا) کیلئے چارا خریدنے پر کئی ملین ڈالرز کی کک بیک کا الزام ثابت ہو نے پر اُن کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔

افریقہ کے ایک ملک کے آئل کے وزیر پر آئل کے بھرے کئی سمندری جہاز غیر ممالک کو فروخت کرنے کا الزام تھا مذکورہ وزیر کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا تھا کہ وہ انوکھے ڈرامہ کے ذریعے لندن پہنچ گئے۔ ہوا یوں کہ مذکورہ وزیر کارگو کے کسی بڑے ڈبے میں خود کو بند کر وا کر بذریعہ ہوائی جہاز لندن کسی دوست کے ہاں بند ڈبے میں پہنچ گئے۔ تفتیش شروع ہو گئی بالآخر سراغ لگا لیا گیاکہ وہ کارگو کے ڈبے میں بند ہو کر لندن فلاں مقام پر ٹھہرے ہوئے ہیں۔تفتیشی افسران جب لندن کے مذکورہ مقام پر پہنچے تو ملزم گرفتار کر لیا گیا لیکن اگر 5 منٹ کی تاخیر سے تفتیشی افسران وہاں پہنچتے تو ملزم وہاں سے بھاگ چکے ہوتے۔ یہ افسانہ نہیں بلکہ ایک حقیقی سٹوری ہے۔
ہمارے ہاں اسمبلیوںکے الیکشن میں جو کشش ہے اس کا اندازہ ضلع سیالکوٹ کے ایک بلدیاتی الیکشن میں ضلع کونسل کی چیئرمین شپ سے کر لیں کہ سابقہ برسوں کے ایک بلدیاتی الیکشن کے بعد چیئرمین کے انتخاب سے پہلے ایک صاحب جو چیئرمین ضلع کونسل کے امیدوار تھے انہوں نے ضلع بھر کے کونسلرز اور بلدیاتی ممبر صاحبان کو کھانے پر مدعو کیا۔ یہ سوچ کر کہ کھانا کھائیں اور امیدوار کی بات سنیںووٹ دینے نہ دینے کے بارے میں بعد میں دیکھا جائیگا۔ ماسوائے دو چار مخالفین کے سب ممبرزکھانے پر آگئے۔ چیئرمین شب کے امیدوارنے کھانے کے بعد ذرا گھومنے پھرنے کے بہانے سب ممبران کو گاڑیوں میں بٹھایا۔ لاہور سے کراچی فلائٹ پر پہلے سے بکنگ کروا رکھی تھی۔کراچی سے ہانگ کانگ کی بکنگ بھی پیشگی موجود تھی۔ سب کو لےکر وہ ہانگ کانگ پہنچ گئے۔ عین الیکشن والے روز صبح اُن کو واپس لا کر ووٹ کاسٹ کروائے اور چیئرمین شپ کا الیکشن جیت لیا۔ اُنکے مخالف منہ دیکھتے رہ گئے۔ اس سے اندازہ کر لیں کہ جو لوگ روپیہ انوسٹ کر کے ،ملک کا کسی بھی سطح کاالیکشن جیت جاتے ہیںتووہ اپنی انوسٹمنٹ کو دوگنا چوگناکیوں نہ دیکھنا چاہیں گے؟ بدیں وجہ ان کو ڈبل شاہ اور ٹرپل شاہ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟ ان لوگوں میں نمازی،حاجی اور عمرے کرنےوالے صاحبان بھی شامل ہوتے ہیں لیکن حمام میں سب ننگے ہیں۔سوائے انکے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے بچا رکھا ہے۔ جب راقم کالم لکھ رہا تھا تو ایک دوست بھلی صاحب کامیسج آیا” ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بھلائی کرنیوالے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اور برائی کرنیوالے کی حوصلہ شکنی نہیں کرتے۔ان سے گزارش ہے کہ اس کالم کے ذریعے تو راقم ان کے دل کی بات کر رہا ہے۔
ایک مرتبہ سردار عبدالقیوم خان مرحوم اور راقم کشمیر ہاﺅس میں ناشتے پر تھے۔ انہوں نے فرمایا کرپشن اب لوگوں کے خون میں رچ بس گئی ہے اس کو کوئی برائی اور گناہ نہیں سمجھتا۔ لوگوں کو موت یاد نہیںلیکن اس سے بھی بڑھ کر روزِ محشر اللہ تعالیٰ کے رو برو جوابدہ ہونا توکوئی سمجھتا ہی نہیں۔ ان لوگوں کی زبان پر ایک ضرب المثل ہے کہ ”یہ جہان مٹھا اگلا جہان کس ڈِٹھا“۔
خلفائے راشدین اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ جب خلیفہ بنائے گئے تھے تو اللہ کے خوف سے اُنکی کمر جھُک گئی تھی۔ خلفائے راشدین کی زندگی میں ہی نبی پاک نے اُنکو جنت کی بشارت سنا دی تھی اسکے باوجود ہر لمحہ وہ اپنے ہر ہر عمل میں روزِ جزا کو سامنے رکھتے تھے۔
آج چھوٹے چھوٹے درجے کے کسی بھی الیکشن میں منتخب شدہ ممبران کے ڈیروں پر ہزاروں روپے روازنہ کے اخراجات ہوتے ہیں۔ خرچ کی جانے والی رقوم بالآخر سرکاری خزانے سے ہی نکلتی ہیں خاص طور پر ڈویلپمنٹ کیلئے جو رقوم ممبران کو ملتی ہیں اور دوسرے نمبر پر عوام کے سرکاری دفاتر سے کام نکلوانے کے عوض اور لوگوں کو سرکاری ملازمتیں دلوانے کے عوض۔
جس کا جتنا زور چلتا ہے وہ ملک و قوم کے خزانے کولوٹنے سرکاری جنگلات کاٹنے اور سرکاری زمینوں کو فروخت کرنے میں کسر نہیں اٹھا رکھتا۔ جس سرکاری دفتر میں صرف دس عدد اہل کاروں کی ضرورت ہے وہاں ممبر صاحبان پندرہ بیس ملازمین بھرتی کروا دیتے ہیں۔
کیا رونا رویا جائے ادارے تباہ ہو گئے ہیں۔ ضلع کا ہر آفیسر سیاستدانوں کی رضا مندی سے متعین کیا جاتا ہے تو ایسے میں وہ ملک کا وفادار رہے گا یا اپنے ضلع کے سیاست دانوں کا؟گو مایوسی گناہ ہے لیکن اس طرح کے حالات میں ہم کب تک اپنے ملک اور ملک کے خزانہ کو سہارا دے سکیں گے۔ نہ ڈبل شاہ ختم ہونگے نہ عوام سکون کی زندگی گزار سکیں گے۔ ہمارے جیسے بے بس لوگ دو لفظ لکھ کر سمجھتے ہیں ہم نے اپنا فرض پورا کر دیا ۔ ملک کے ہر شہری کیلئے یہ فوڈ فارتھاٹ ہے۔ البتہ جو ڈبل شاہ نہیں ہم انکی تندرستی اور نیکی والی زندگی کیلئے دعا گو ہیں۔ ہر ڈبل شاہ کیلئے گروہ در گروہ ہر جگہ زندہ باد کے نعرے لگانے والے ان سے فیض یاب ہونے والے موجود ہیں۔

ای پیپر دی نیشن