نوآبادیاتی سامراجی روایات سے چمٹی بھارتی فوج

امریکہ‘ روس اور عوامی جمہوریہ چین کے بعد بھارت دنیا کا وہ ملک ہے جس کے پاس سب سے بڑی فوجی تعداد ہے 13 لاکھ50 ہزار کی تعداد میں فوجی حجم رکھنے والا یہ ملک اپنی فوج پر سالانہ 40 بلین ڈالرز سے بڑی خطیر رقم خرچ کرتا ہے جبکہ ہر سال اِس فوجی رقم میں کہیں ٹھہراو¿ نظر نہیں آتا اضافہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ دیش بھر میں غربت‘ افلاس‘ تنگ دستی‘ مفلوک الحالی اور دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی جانب دھیان دینے کی بجائے جنوبی ایشیا میں بھارت نے اپنی اِس زعم وتکبر سے سرشار فوجی برتری کی بلا ضرورت شان وشوکت کو کیوں برقرار رکھنا ضروری سمجھا آج تک کسی بھی بھارتی نواز حلقے سے اِس سوال کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں آیا۔ بہرحال‘ بھارت جانے اور اُسکی آئے روز کی بڑھتی ہوئی فوجی ضروریات کو جائز سمجھنے والے جانیں یہاں پر ہم اپنے قارئین کو نئی دہلی کے جنتر منتر کے مقام پر لئے چلتے ہیں، جہاں ’انڈین وائس آف ایکس سروس مین سوسائٹی‘ کے اراکین کی ایک بہت بڑی تعداد نے اپنی سرکار کے سامنے اپنے جو مطالبات رکھے اُنکی میڈیا میں بازگشت آنے کے بعد ہم یہ بات جان پائے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے آج بھی بھارت اکیسیویں صدی کے دوسرے عشرے 2015ءمیں نہیں بلکہ 60-65 سال پیچھے رہ رہا ہے جبکہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ دنیا بھر کے ممالک میں ’برٹش پروفیشنل آرمی ایکٹ‘ میں کیا سے کیا تبدیلیاں رونما ہو گئی ہیں ہر ملک نے اپنے سماجی وثقافتی معروضی حالات کیمطابق گزرتے وقت کے ساتھ نہ صرف اپنی آزادی وخود مختاری کو برقرار رکھنے کےلئے آئین میں دفاعی تبدیلیوں کا سفر طے کیا اور اپنے قومی سلامتی کے اداروں ’حساس‘ اداروں کو بھی اپنی ثقافتی اور سماجی روایات کے مطابق ڈھالنے میں ہر نئے پیشہ ورانہ امکانات کو خوش آئند جانا اور اُن سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ بھارت نے آج تک اپنے قومی سلامتی کے اداروں، بالخصوص بھارتی فوج میں ’نوآبادیاتی نظام‘ کو جاری وساری رکھنا کیوں ضروری سمجھا؟ جبکہ یہ عہد سائنسی تفکر کا عہد ہے، جدید سائنسی فکر ونظر کے مطابق انسانی سوجھ بوجھ ترقی کررہی ہے، بھارت کی فوج میں اپنے وقت پر یہ تبدیلی نہیں آئی اور تادمِ تحریر غالباً وہاں پر وہ ہی کہنہ اور فرسودہ نوآبادیاتی سامراجی عسکری سسٹم رائج ہے، جنوبی ایشیا سمیت مشرق البعید کے کئی ممالک نے اپنے قومی سلامتی کے اداروں کو نئے عہد کی انسانی سہولیات و ضروریات سے ہم آہنگ کرلیا جبکہ بھارت وہیں کا وہیں کھڑا ہے، بھارت کی فوج میں ’نان کمبٹنگ ارڈلی‘ رولز کو نہیں اپنایا سامراجی دور کی روایات کو باقی رکھا گیا ہے جس کےخلاف دارالحکومت نئی دہلی میں ’ون رینک ون پنشن‘ کیلئے جاری تحریک کے دوران سابق فوجیوں نے بڑے زور وشور سے احتجاج کےلئے دھرنا دیا جسے آر ایس ایس کی نئی دہلی سرکار نے اپنے ہی سابق سولجرز پر جن میں کئی لاغر‘ جسمانی لحاظ سے کمزور ترین اور معمر افراد شامل تھے، اُن پر نئی دہلی کی پولیس نے آر ایس ایس کے لاٹھی برداروں کے ساتھ مل کر دل کھول کر لاٹھی چارج کیا۔ نئی دہلی سرکار نے اُنکی مانگیں سننے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی کہ ہمارے دیش کے یہ سابق فوجی اہلکار کیا مانگ رہے ہیں، اِس تحریک میں شامل سابق فوجیوں کا ایک الزام تو یہ ہے کہ بھارتی فوج میں اِنکی تعداد یعنی ’کمبیٹنٹ سولجر‘ کی تعداد 87% کے قریب ہے جنہیں فوج میں ’اچھوت ‘ سمجھا جاتا ہے جب مراعات اور سہولیات کی بات ہوتی ہے، تو امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور افسروں کو ترجیح دی جاتی ہے اُن کا یہ کہنا بھی تھا فوج میں تقریباً ایک لاکھ جوان تو ایسے ہیں جو فوجی افسروں کی ملازمت کرتے ہیں، جیسے اُنکے جوتے پالش کرنا‘ اُنکے کتوں کو گھمانا‘ اُن کے گھروں کی صفائی کرنا‘ رات گئے اُن کےلئے کھانا پکانا اور اُنکے کپڑے دھونا وغیرہ شامل ہے، اِسکے باوجود فوجی افسروں کو اُنکی تنخواہوں میں الگ سے ’سرونٹ الاو¿نس‘ ملتا ہے۔ انڈین وائس آف ایکس سروس مین سوسائٹی کے نام سے رجسٹر ڈ سابق فوجیوں کی اِس تنظیم میں جوانوں کے علاوہ نان کمیشنڈ افسراور جونیئر کمیشنڈ افسر بھی شامل نظر آئے، سوسائٹی کے کنوینر ویر بہادر سنگھ نے دیشی اور بدیشی میڈیا سے اپنی بات چیت میں کہا کہ ’سرونٹ الاو¿نس‘ کو جیب میں ڈال کر گھریلو کام فوجی جوانوں سے کر انا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ دنیا بھر میں یہ سسٹم متروک ہوچکا پھر بھارتی فوج میں کیوں جاری ہے؟

ای پیپر دی نیشن