لبیک اللھم لبیک

زمانے بھر میں کسی بھی دوسری قوم اور مذہب میں نظم و ضبط، شرفِ انسانیت، صلہ رحمی اور امن و آشتی پر مبنی بھائی چارے کی ایسی کوئی مثال موجود نہیں جو فرزندانِ توحید کی جانب سے ہر سال فریضہ¿ حج کی ادائیگی کے دوران حرم پاک اور بارگاہِ رسالت مآبﷺ پر لاکھوں کے اجتماع کے باوجود شرف انسانیت اور ڈسپلن کا تقاضہ نبھا کر قائم کی جاتی ہے۔ مناسک حج کی ادائیگی کے دوران روح کی بالیدگی کا اہتمام کرنے والی انوار کی بارش ذاتِ باری کے وحدہ لاشریک ہونے کی گواہی دیتی ہے تو دنیا و مافیہا سے بے خبر ذکر الٰہی میں مگن لاکھوں فرزندانِ توحید ایک ہی لبادے، ایک ہی رنگ، ایک ہی ڈھنگ اور ایک ہی سوچ و آہنگ کے قالب میں ڈھلے ربِ کائنات کے فلسفہ تخلیق کائنات کو اجاگر کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ فلسفہ انسانی بھائی چارے کی بنیاد پر شرف انسانیت کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے جس میں....

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری درگاہ میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
فریضہ¿ حج کی ادائیگی کے دوران شرف انسانیت کے لاثانی مظاہر کو اپنی آنکھوں میں سموتے اور ربِ کائنات کی فیوض و برکات کے سدابہار چشموں سے سیراب ہوتے ہوئے ملک واپس لوٹا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اپنا دل اور آنکھیں وہیں چھوڑ آیا ہوں پرکیف سفرِ حج کی یادوں کو ذہن سے کاغذ پر منتقل کرکے محفوظ کرنے کا ارادہ ہے جس کے لئے ذاتِ باری تعالیٰ سے قلم میں استقامت اور ذہن کی کشادگی کا خواستگار ہوں۔ فی الوقت مجھے فرزندانِ توحید کے اس ڈسپلن کی گواہی دینا ہے جو امن و آشتی کے حوالے سے فرزندانِ توحید میں بدرجہ اتم موجود ہے اور انسانی ڈسپلن کا یہی وہ شاہکار ہے جو دوسرے مذاہب اور اقوام میں ناپید ہے۔ مسلم امہ کا یہی وہ طرہ¿ امتیاز ہے جس سے لادین قوتیں خوفزدہ ہیں اور امتِ واحدہ کو انتشار کا شکار کرنے کی سازشوں کے تانے بانے بنتی رہتی ہیں۔
مجھے سعودی وزارتِ ثقافت و اطلاعات کی دعوت پر شاہی مہمان کی حیثیت سے فریضہ¿ حج کی ادائیگی کی سعادت حاصل ہوئی چنانچہ مجھے اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے دوران سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ہدایات کے تابع کئے گئے سعودی حکومت کے ان اقدامات و انتظامات کا مشاہدہ کرنے اور جائزہ لینے کا بھی موقع ملتا رہا جو سعودی دھرتی پرآئے لاکھوں مہمان حجاج کرام کی حفاظت، نگہداشت، قیام اور صحت و تندرستی کے لئے ضروری سمجھے گئے تھے۔ چونکہ عیدالفطر سے قبل ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں اسلام دشمن بدبختوں نے ہمارے ایمان و ایقان اور مقصدِ حیات کے محور حضرت نبی¿ آخرالزمان کے روضہ¿ اقدس کے باہر دہشت گردی کی فتنہ پرور واردات کے ذریعے مسلم امہ کو منتشر کرنے کی اپنی ذہنی پراگندگی کا مظاہرہ کیا تھا جس پر پوری مسلم امہ غم سے نڈھال تھی اس لئے حج کے اجتماع کے دوران بطور خاص نظم و ضبط برقرار رکھنا اور دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو پنپنے نہ دینا سعودی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج تھا اس لئے حج کے انتظامات کو بطور خاص امن و آشتی پر ہی فوکس رکھا گیا جس کے لئے سعودی ڈسپلنڈ فورسز کو پوری مشاقی کے ساتھ بروئے کار لایا گیا تو سعودی باشندوں اور رضاکار تنظیموں نے بھی حج کے موقع پر پاک سعودی دھرتی کو امن و آشتی کا گہوارہ بنائے رکھنے کے لئے بے مثال کردار ادا کیا۔ سکیورٹی انتظامات کے اس حسنِ تدبر و تدبیر کا مشاہدہ کرنے کے لئے دنیا بھر میں پھیلے مسلم ممالک میں سے مجموعی 39میڈیا پرسنز کو مدعو کیا گیا تھا جنہیں شاہی مہمان کی حیثیت سے فریضہ¿ حج کی ادائیگی کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے لنچ میں ان سے تبادلہ¿ خیال اور مصافحہ کرتے ہوئے ان کی انتظامی فہم و بصیرت کا مشاہدہ کرنے کا بھی موقع ملا۔ مکہ میں سعودی فوجی ہیڈ کوارٹر میں اہتمام کردہ فوجی پریڈ سعودی فوج کی بے پایاں مشاقی کی پل پل گواہی دیتی رہی جس کا افتتاح سعودی پرنس، نائب وزیراعظم اول اور وزیر خارجہ نائف بن عبدالعزیز نے کیا۔ اس پریڈ میںبالخصوص گن شپ ہیلی کاپٹروں، لڑاکا طیاروں، گھن گرج والی توپوں اور ٹینکس کا مظاہرہ دیدنی تھا۔ حج کے دوران دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کو کیسے ناکام بنانا ہے۔ سعودی فوجی جوانوں نے آگ و بارود میں کود کر اور دہشت گردوں کے ہدف کو محفوظ کر کے اس کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ سعودی فورسز کی اس مشّاقی کا جائزہ لیتے ہوئے اس پاک دھرتی کے مضبوط ہاتھوں میں محفوظ ہونے کی گواہی ملی۔ منیٰ میں سعودی وزیر اطلاعات الشیخ عادل نے اپنے ظہرانہ میں انٹرنیشنل میڈیا کو حج کے موقع پر کئے گئے سکیورٹی کے خصوصی انتظامات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ خادم حرمین شریفین کے اس فلسفہ کو بھی اجاگر کیا جو مسلم امہ کے اقوام عالم کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اخوت و بھائی چارہ کے جذبہ سے ہم آہنگ ہے۔ اس فلسفہ میں بطور خاص دین اسلام کے دہشت گردوں سے لاتعلق ہونے کا اعلان و اعادہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جو عناصر خدا کے نام پر بے گناہ و معصوم انسانوں کو اپنی سفاکانہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں وہ ہرگز ہم میں سے نہیں ہیں۔ اسلام میں دہشت گردی کا کوئی تصور ہے نہ دہشت گردوں کی گنجائش۔ حج کا عظیم اجتماع اس کی گواہی ہے کہ فرزندان توحید اپنی ذات کی نفی کر کے بارگاہ ایزدی میں ”لبیک الھم لبیک لاشریک لکَ لبیک، انا لحمد ونعمتَ لکَ ولملک، لاشریک لک“ کا ورد کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں اپنی کسی بڑائی اور برتری کا کوئی خلجان نہیں ہوتا۔ بلاامتیاز رنگ، نسل و جنس وہ سب توحید کی لڑی میں پروئے نظر آتے ہیں۔ اپنی جھوٹی اناﺅں اور بلند شملوں کو تج کر آتے ہیں اور اپنی ذات کی نفی کا اس شعر کے مصداق شاہکار بن جاتے ہیں کہ....
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
منیٰ کے شاہی پیلس میں صدر پاکستان ممنون حسین اور متعدد دوسرے مسلم ممالک کے سربراہوں، مذہبی پیشواﺅں، ڈپلومیٹس اور انٹرنیشنل میڈیا کے ارکان سمیت ایک ہزار کے قریب افراد سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے روبرو تھے جنہوں نے سعودی رائل فیملی کے ارکان کے ساتھ تقریباً دو گھنٹے تک کھڑے ہو کر ہال میں موجود اپنے ہر مہمان کو فریضہ حج کی سعادت پر مبارکباد دیتے ہوئے مصافحہ کا شرف بخشا، اپنے مہمانوں کی عزت افزائی کی اس سے بہتر اور کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ پرتکلف ظہرانہ بھی اس عزت افزائی کا حصہ تھا جس میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔
حج کے ایام میں سکیورٹی انتظامات اتنے سخت کئے گئے تھے کہ صرف حج کا ویزہ رکھنے والوں کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی، چنانچہ مقامی سعودی باشندوں اور روزگار و سیاحت کے سلسلہ میں مقیم غیر سعودی باشندوں کا دوران حج ان دونوں مقدس شہروں میں داخلہ ممنوع رہا جنہیں چیک پوسٹوں پر تفتیش و تلاشی کے کٹھن مراحل کا سامنا کرتے ہوئے واپس لوٹنا پڑا۔ سکیورٹی کے ان سخت انتظامات کے باعث ہی سعودی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال 16 لاکھ 50 ہزار کے قریب فرزاندان توحید حج کی سعادت حاصل کر پائے اور ان کی جسم و جاں کو 46 ڈگری سنٹی گریڈ والی شدت کی گرمی کی حدت برداشت کرنے کے علاوہ گزند تک نہ پہنچی۔ سعودی حکومت نے ہر عازم حج کے جسم و جاں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اس سال خصوصی انتظامات کے پیرامیٹرز متعین کر کے تمام مسلم ممالک کو ایک معاہدے کے تحت ان پیرامیٹرز سے کسی قسم کی روگردانی نہ کرنے کا پابند بنایا تاہم ایران نے اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا۔ نتیجتاً ایرانی باشندوں کو اس سال فریضہ حج کی ادائیگی سے محروم ہونا پڑا ماسوائے ان ایرانی باشندوں کے جو کسی نہ کسی طریقے سے دوسرے ممالک سے حج ویزہ حاصل کر کے سعودی عرب آئے تھے۔ کسی مسلم ملک کے باشندوں کا مجموعی طور پر مذہبی فریضے کی ادائیگی سے محروم ہونا بلاشبہ اتحاد امت کے تصور میں کمزوری سے تعبیر ہو سکتا ہے مگر اس سے فریضہ حج کی پرامن ادائیگی پر دوسرے مسلم ممالک کے باشندوں کے چہروں پر نظر آنے والے اطمینان اور پھر ان کی زبانوں پر اس اطمینان کے اظہار سے برادر ایران کے حاکمانِ وقت کو اپنی سوچ اور پالیسیوں کا ضرور جائزہ لینا چاہئے۔ ہم اتحاد امت میں دراڑیں ڈالنے والی لادین قوتوں کی سازشوں کا خود کو چارہ بنائیں گے تو اپنی کمزوری کی خود ہی بنیاد رکھیں گے۔
(جاری)

ای پیپر دی نیشن