سیاست کی وجہ سے جہاں کاروباری ماحول تباہ ہو جائے، اقتصادی خوشحالی کے منصوبے معلق ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جائے، فیکٹریاں اورکارخانے بند ہونے سے بے روزگار سڑکوں پر مارے مارے پھریں انہیں جاب دینے والا کوئی نہ ہو، جہاں سیاستدان تہذیب اور شائستگی کو خیرباد کہہ دیں۔ جب سیاسی اقدار اس قدر بدل جائیں کہ کسی سیاسی جماعت کے ورکر مخالفین کے گھروں کے سامنے پہنچ کر شور مچانے اور احتجاج کرنے کو شرمندگی کی بجائے بہادری سمجھنے لگیں، اسے سیاست نہیں بلکہ ملک کے خلاف سازش کہا جائے گا اور ایسی سیاست کرنے والے عناصر چاہے خود کو کتنے ہی عقلمند سمجھیں انہیں ملکی معیشت کے لیے سازشی قرار دیا جائے گا۔ پاکستانی معیشت کے خلاف بڑا کردار بھارتی حکمران ہیں۔ انہوں نے جنگیں مسلط کر کے پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے کا ناپاک کھیل کھیلا لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ بہادر افواج اور عوام کے اتحاد نے بھارتی عزائم خاک میں ملا دیئے۔ جُرتوں کے ایسے چراغ روشن کیے کہ ان کی روشنی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستان اب ایٹمی طاقت بن چکا ہے اس لیے بھارت کو بڑی جنگ چھیڑنے کے ارادوں سے دستکش ہونا پڑا ہے۔ البتہ پاکستان کی معیشت کے خلاف طویل منصوبہ بندی پر مختلف جہتوں سے عمل کر رہا ہے۔ اندرون ملک بعض عناصر تسلسل کے ساتھ سیاست کے نام پر ملک کے معاشی حالات دگرگوں کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اس کا فائدہ انہیں ملتا ہے اور نہ ہی عوام کو، البتہ ان کی پیدا کردہ بدامنی اور خلفشار سے صرف بھارتی حکمرانوں کی سازشوں کو تقویت ضرور ملتی ہے۔ بھارتی حکمرانوں کی پاکستان دشمنی کا ایک رُخ یہ ہے کہ اس نے پاکستان کی زرعی زمینوں کو بنجر بنانے کے لیے پاکستان کے پانیوں کو مختلف مقامات پر روک رکھا ہے، اسے پانیوں پر ڈاکہ کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے لگ بھگ تیس برس پہلے کالا باغ ڈیم بنانا شروع کیا تاکہ پاکستان میں سستی بجلی اور زرعی زمینوں کوپانی میسر آ سکے بھارت نے اربوں روپے خرچ کر کے پاکستان میں ڈیم مخالف لابی پیدا کر لی۔ اس لابی نے آخر کار ڈیم کو متنازعہ قرار دلوا کر سرد خانے میں ڈلوا دیا۔ موجودہ حکومت نے دوست ملک چین کی گرانقدر سرمایہ کاری سے گوادر سے کاشغر تک اقتصادی راہداری کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ چین کے وزیراعظم نے جن تاریخوں میں اسلام آباد پہنچ کر 46 ارب ڈالر کے معاہدے پردستخط کرنا تھے ان دنوں میں دو سیاستدانوں نے اسلام آباد کی اہم ترین جگہ پر کنٹینر کھڑے کر کے احتجاجی پروگرام شروع کر دیا۔ اس وجہ سے حکومت کی درخواست پر چین کے قائدین نے اپنا دورہ لگ بھگ چار ماہ کے لیے موخر کر دیا۔ اپنے ہی سیاستدانوں کی احتجاجی سیاست کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی خوشحالی کے معاہدہ پر دستخط چار ماہ لیٹ ہونے کی وجہ سے منصوبے پر کام کا آغاز بھی اسی قدر تاخیر سے ہوا۔ محب وطن سیاستدان ملکی ترقی و خوشحالی اور عوامی فلاح کے منصوبوں میں کسی طور روڑے نہیں اٹکاتے۔ سیاستدان اپنے ورکرز کو دنگا فساد اور لڑائی جھگڑے پر نہیں اُکساتے نہ ہی مخالفین کے گھروںکے سامنے احتجاجی پروگرام کرنے پر اُکساتے ہیں بلکہ انہیں تربیت دیتے ہیں کہ سیلاب زلزلے یا کوئی اور مشکل پیش آئے تو ہموطنوں کی مدد کی جائے۔ پاکستان کے عوام گواہ ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن ایسا عمل کرتے ہیں۔ پاکستان کے ایک سیاستدان ہمہ وقت اپنے ورکرز کو لڑائی پر اُکسا تے رہتے ہیں۔ ایسی صورتحال کے پیش نظر تمام کاروباری افراد سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ تسلسل کے ساتھ بڑے شہروں کے کاروباری مراکز میں خلل پیدا کرنے والے سیاستدانوں کو ملکی سلامتی خیر خواہی یا خوشحالی سے کوئی سروکار نہیں اپنے پروگراموں کے ذریعے ملک دشمنوں کے ایجنڈا کو تقویت دے رہے ہیں۔ کشمیر پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے، بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر میں ہر روز بچوں، بوڑھوں، خواتین اور جوانوںکو بربریت سے مار رہے ہیں، بچوں کی بینائی ختم کر رہے ہیں۔ ان حالات میں ہر پاکستان دل گرفتہ ہے۔ وزیراعظم پاکستان اقوام عالم کو بھارتی مظالم سے آگاہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ میں پہنچ کر دنیا کے سامنے بھارتی بربریت سے پردہ اٹھا چکے ہیں لیکن سیاستدان صاحب کی سرگرمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ انہیں پاکستان کو درپیش مسائل سے کوئی سروکار نہیں، انہیں مقبوضہ کشمیر میں بہتے معصوم خون کی طرف دھیان دینے کی فرصت نہیں، ان کے نزدیک سب سے بڑا قومی مسئلہ رائیونڈ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے گھر کے سامنے شور شرابہ کرنا ہے۔ اس طرح بالواسطہ طور پر یہ صاحب پاکستان کی معیشت کے لیے مسائل کھڑے کر رہے ہیں۔ بھارت اپنے اندرونی واقعات کو بہانہ بنا کر پاکستان پر جارحیت کی دھمکیاں دے رہا ہے، دوسرے سیاستدانوں کے ساتھ مل کر قومی سطح پر ان دھمکیوں کا جواب دینے کے لیے سیاستدان کے پاس وقت نہیں یا ان کے نزدیک پاکستان کو دھمکیا ں ملنا کوئی خاص بات نہیں۔ ان کے نزدیک بڑا مسئلہ حکمران جماعت کے ذمہ داران کے گھروں کے سامنے بائی ہک اینڈ کرک پہنچنا ا اور احتجاج کرنا ہے۔ کاروباری طبقہ بار بار انہیں توجہ دلا رہا ہے کہ اگر ان کے نزدیک احتجاج اتنا ہی ضروری ہے تو کسی ایک مقام پر ایک دن احتجاج کر لیں تاکہ ان کا مقصد پورا ہو سکے۔ موجودہ طرز عمل سے اقتصادی اور بجلی پیدا کرنے کے جاری منصوبوں میں تعطل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ سیاستدان کو رائے عامہ کی پرواہ ہے اور نہ ہی کاروباری سرگرمیوں میں تعطل پیدا ہونے کے مضمرات کا کوئی احساس ہے۔ کاروباری طبقہ کی طرف سے ہماری تمام سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ اپنی انا کو پالنے کی کوشش نہ کریں بلکہ ملک و قوم کے مفاد میں کچھ وقت کیلئے احتجاجی پروگرام لپیٹ دیں۔ مقبولیت کا گراف سڑکیں یا کنٹینر نہیں بتاتا بلکہ الیکشن میں عوام کے ووٹوں نے بتانا ہے۔کامیابیوں کیلئے واحد راستہ خدمت ہے۔ جو اس راستے کو اختیار نہیں کرے گا ناکامیاں اس کا ہمیشہ مقدر بنی رہیں گی۔