پاکستان کے سابق وزیراعظم نوازشریف سپریم کورٹ سے پانامہ کیس کی تفتیش کی روشنی میں اقامہ اور تنخواہ کا معاملہ چھپانے پر نااہل تو قرار دے دیئے گئے مگر عدالت عظمی کے فیصلہ پر عمل درآمد کرنے کے بعد ان کے علم میں آیا کہ اس معاملہ کا ان سے یا ان کے بچوں کی اربوں روپے سے بنائی جانے والی جائیداد سے بالکل نہیں ہے بلکہ معاملہ کچھ اور ہے۔اللہ بھلا کرے چند مشیروں کا جنہوں نے میاں صاحب کو خواب غفلت سے جگایا اور بتایا کہ جہاں پناہ جان کی امان پاتے ہوئے عرض ہے کہ اصل میں سزا آپ کو نہیں دی جا سکتی اور نہ کسی میں اتنی جرأت ہے کیونکہ حضور کی ''بندہ پروری اور احساس انسانیت'' کے باعث ہر سرکاری ادارے میں ان کے جاں نثاران پوری دلجمعی سے ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں اور جناب بھی اس قوم کا ایسے ہی ایک اہم جز ہیں جیسے بکرے میں ران کا گوشت ہوتا ہے اس لئے ان کو نااہل کرنے والے وہ لوگ ہیں جو آنجناب کی بندہ پروری سے ''معتوب'' نہیں ہو سکے اور اسی وجہ سے انہوں نے حضور کو اقتدار سے واپسی کا راستہ دکھا کر ''ووٹ'' کی توہین کی ہے۔یہ سننا تھا کی درد دل نے ایک پل چین نہ لینے دیا اور نوازشریف نکل پڑے ووٹ کا تقدس بحال کروانے لیکن جہاں پر تقدس بحال کروانا تھا وہ وہاں سے ذرا دور نکل گئے ہیں اور جلد ہی تقدس کا مقدس دھاگہ ان کو وطن واپس لے آئے گا ویسے کس حد تک ملک میں ووٹ کا تقدس ہے اس کا اندازہ اس حقیقت نما لطیفے سے لگایا جا سکتا ہے۔برطانوی: ہمارے ملک میں پوسٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی سہولت ہے۔جرمن: ہم تو جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہو رہے ہیں اور ہمارے ملک میں تو آن لائن بھی اپنا ووٹ کا حق استعمال کر سکتا ہے۔ امریکی: ہم نے تو زندگی کو اور بھی آسان کر دیا ہے اور ہر ووٹر اپنے موبائل میسج سے ہی ووٹ کاسٹ کر سکتا ہے۔پاکستانی: تینوں لوگوں کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہتا ہے کہ جو باتیں ان لوگوں نے بتائی نہ تو وہ ترقی ہے اور نہ سہولت ہے۔ ترقی اور سہولت تو یہ ہے کہ ہم پاکستانی پولنگ سٹیشن جائے یا نہ جائے اس کا ووٹ کاسٹ ہو جاتا ہے۔ یہ ہوتی ہے اصلی ترقی ووٹ کا تقدس اگر لازم ہے تو عدلیہ کا تقدس بھی کم نہیں مگر جس طریقہ سے پانچ افراد کا نام لیا جارہا ہے ایسے تو حمید سپاہی بھی ملزم کو لگائے جانے والے ''پانجے'' کا نام نہیں لیتا پانجے کا مطلب پولیس کی طرف سے ملزم کو لگائے جانے والے پانچ چھتر یا لتر ہوتے ہیں یا جو بھی آپ کہہ لیں مگر یہ ہوتے ملزمان کی ''حوصلہ افزائی'' کے لئے ہی ہیں تاکہ وہ مزید کسی جرم کا ارتکاب نہ کرے لیکن ملزمان اس پانجے کو مہر تصدیق سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے جرم کا درست طریقے سے ارتکاب کیا اسی لئے تو پولیس نے ان کو یہ شرف بخشا ورنہ کسی'' شریف آدمی'' کی جرات کہ وہ یہ اعزاز حاصل کر سکے۔ شریف آدمی کا مطلب عام آدمی ہے اس کا کسی اہم شخص سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہ بات سند رہے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔جس طرح ووٹ کا تقدس نوازشریف نے رکھا اس کے لیے کتنی بار وہ ایوان میں گئے یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے لاکھوں لوگوں کے مقدس ووٹ حاصل کر کے جس طرح ممبران اسمبلی کا تقدس پامال کیا جاتا رہا اور ن لیگ کے کئی ایم این ایز کئی کئی دن تک نوازشریف کو مل نہیں سکتے یہ ووٹ کی حرمت ''برقرار'' رکھنے کی نوازشریف کی سعی نہیں تو اور کیا تھا۔
مخاصمت میںایک شخص پارلیمنٹ کی حدود میں شیخ رشید پر حملہ کرتا ہے یہ عام آدمی کے ووٹ کی طاقت کو بڑھانے کی طرف نوازشریف کا قدم نہیں تو اور کیا تھا یہ الگ بات کہ نوازشریف کو اکثر رفقاء قدم بڑھانے کی تلقین کرتے ہیں مگر خود افتاد پڑنے پر الٹے پاؤں راہ فرار اختیار کرتے ہیں کیونکہ ''ملک و قوم اور ذاتی ترقی'' کے لئے ان کا نوازشریف کو ایسے قدم بڑھانے سے روکنا از حد ضروری ہوتا ہے ا بھی بھی نوازشریف کو چند ایسے ''سیاسی دانا'' لوگ قدم بڑھانے، ڈٹ جانے اور جان کی بازی تک لگا دینے کا مشورہ دے رہے ہیں مگر ایسے افراد حالات اور اقتدار کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے خود ''الٹ بازی'' لگا کر کسی اور جمناسٹک رنگ کا انتخاب کر لیں گے اور نواز شریف قدم بڑھانے کے بعد رنگ کے ایک کارنر میں اکیلے ہی مخالف حریف کے گھونسوں کو برداشت کر رہے ہوں گے کیونکہ اس مرتبہ رنگ میں لگنے والے زخموں کا درد اور ان کے نشانات ان کے بچوں پر بھی واضح طور پر نظر آئیں گے۔
حالات کی نزاکت نواز شریف کو اکیلے ہی قدم بڑھانے کی بجائے قدم سے قدم ملا کر چلنے کی تلقین کر رہی ہے اس مرتبہ غلط سمت میں اٹھنے والے قدم خطہ میں موجود گھمبیر حالات کو پاکستان کے لئے اور خطرناک کردیں گے اور اس بات کا عندیہ سابق وزیر داخلہ نثار علی خان بھی دے چکے ہیں کہ ملک جن خطرات سے دوچار ہے اس بابت نوازشریف مکمل طور آگاہ ہیں یہ الگ بات ہے کہ نوازشریف ان خطرات پر اپنے مفادات کو زیادہ ترجیح دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کوئی اس بات کو مانے یا نہ مانے یہ اس کے ''صوابدیدی اختیارات '' ہیں۔
موجودہ حالات نوازشریف کی حب الوطنی کا ٹیسٹ بھی ہیں کہ وہ اقتدار کی سیڑھی سے اونچا سوچنے کی کوشش کرتے ہیں یا وہ ''لوڈو'' والی سانپ اور سیڑھی والی گیم تک ہی محدود رہنا پسند کریں گے جو اس بات پر مہر ثبت کر دے گا کہ نوازشریف دلوں کا نہیں ''دنوں'' کا وزیراعظم تھا اور ووٹ کے تقدس کی بحالی کی سعی اصل میں اقتدار کی بحالی کی طرف بڑھنے والا قدم تھا۔ فیصلہ آپ کا کیونکہ تقدیر بہت کم لوگوں کو دلوں پر حکمرانی کے مواقع فراہم کرتی ہے۔