لاہور (وقائع نگار خصوصی+ خصوصی رپورٹر) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ شائع کرنے کا حکم دیدیا۔ فاضل عدالت نے ہوم سیکرٹری پنجاب کو عدالتی فیصلے پر فوری عمل کرنے کا حکم دیدیتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل انکوائری رپورٹ کی کاپیاں سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے ورثاءکو دی جائیں۔ فاضل عدالت نے کیس کی سماعت کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔ فاضل عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے متعلق جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیتے ہوئے ہوم سیکرٹری پنجاب کو عدالتی فیصلے پر فوری عمل کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ جمہوری نظام میں ایسے وحشیانہ واقعہ کے اصل حقائق عوام کے علم میں ہونے چاہئیں۔ پنجاب حکومت سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے متاثرین کو فوری طور پر انکوائری رپورٹ حوالے کرے۔ کسی بھی واقعہ کے متاثرہ شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت سے رحوع کرے ۔ عوام کو بروقت انصاف فراہم نہ کرنے سے عدلیہ کی ساکھ بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ عدالتیں عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاون کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ ایک عوامی دستاویز ہے۔ جوڈیشل انکوائری عوام کے مفاد میں کی جاتی ہے اور اسے عوام کے سامنے ہونا چاہیے ۔فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل19اے، ویسٹ پاکستان ٹریبونل اینڈ انکوائری ایکٹ1969، پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ1913، ضابطہ فوجداری، قانون شہادت 1984 اور اعلی عدالتوں کے فیصلوں سمیت دیگر مروجہ قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مفاد عامہ اور بنیادی حقوق کی دستاویز کے طور پر سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی انکوائری رپورٹ کو پبلک کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ مفاد عامہ کی بنیاد پر فیصلے کرنا عدلیہ کی آئینی ذمہ داری ہے۔ فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ قانون کی حاکمیت اس کے نفاذ میں مضمر ہے۔متاثرین کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاون میں چودہ بے گناہ افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوئے، سانحہ ماڈل ٹاون کی تحقیقات کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل جوڈیشل کمشن بنایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ عدالتی کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کر کے پنجاب حکومت کے حوالے کر دی تاہم ابھی تک اسے منظر عام پر نہیں لایا گیا،انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ معلومات تک رسائی ہر شہری کا آئینی حق ہے اور جوڈیشل رپورٹ شائع نہ کرنا اس آئینی حق کی نفی ہے، ماڈل ٹاون کے استغاثہ میں جوڈیشل انکوائری رپورٹ انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمشن کی انکوائری سے مظلوموں کو انصاف مل سکتا ہے۔ انہوں نے استدعا کی کہ سانحہ ماڈل ٹاون کی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا جائے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ حکومت نے یہ انکوائری اپنی معلومات کے لیے کروائی تھی،سرکاری وکیل نے استدعا کی کہ اسی نوعیت کی درخواستوں پر فل بنچ سماعت کر رہا ہے لہٰذا ان درخواستوں کو بھی سماعت کے لئے فل بنچ کو بھجوا دیا جائے جس پر فاضل عدالت نے ریمارکس دئیے تھے کہ عدالت ایڈووکیٹ جنرل کے آفس کے حکم پر نہیں چلتی، عدالت صرف اللہ کو جواب دہ ہے،کیا وہ عدالت ہوتی ہے جہاں لوگوں کو پہلے سے ہی ہونے والے فیصلوں کا علم ہو جائے۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سانحہ میں لوگ شہید اور زخمی ہوئے مگر رپورٹ چھپا کر رکھی ہے، عدالت نے کہا کہ ٹربیونل عوامی مفاد کے لیے بنایا گیا تھا، رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے لیے متاثرین نے عدالت سے رجوع کیا، حکومت نے خود لیٹر لکھ کر جج کو تعینات کروایا، کیا درخواست گزاروں کو جاننے کا حق نہیں کہ ان کے بچے، بہن، بھائی اور باپ کو کیوں اور کیسے مارا گیا، عدالت نے فریقین کے وکلاءکے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔فاضل عدالت نے گزشتہ روزمحفوظ فیصلہ سناتے ہوئے جوڈیشل انکوائری رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان عومی تحریک کے مرکزی رہنماءخرم نواز گنڈا پور نے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے کہاکہ اب سانحہ کے قاتل کیفر کردار تک پہنچیں گے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیراعلیٰ رپورٹ منظر عام پر آتے ہی اپنے وعدے کے مطابق عہدے سے مستعفی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فیصلے کو چیلنج کیا گیا تو بھرپور دفاع کریں گے۔ علاوہ ازیں سانحہ ماڈل ٹاو¿ن عدالتی کمیشن کی تشکیل کے خلاف اور انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کیلئے دائر درخواستوں کی سماعت کیلئے نیا فل بنچ تشکیل دیدیا گیا۔ قائم مقائم چیف جسٹس یاور علی کی سربراہی میں 3 رکنی فل بینچ 25 ستمبر کو کیس کی سماعت کریگا۔ پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ جھوٹا اور مکار قرار دیتے ہوئے کہا کہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے اصل منصوبہ ساز تھے۔ علاوہ ازیں لاہور ہائیکورٹ نے سابق آئی جی پولیس پنجاب مشتاق سکھیرا کی سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے استغاثہ میں طلبی کے احکامات پر عملدرآمد روکنے کے فیصلے میں 27 نومبر تک مزید توسیع کردی۔ تین رکنی فل بنچ نے سابق آئی جی مشتاق سکھیرا کی درخواست پر سماعت کی۔