مودی کا دہشتگردانہ عمل اور اٹھاون ممالک کا ردعمل

مقبوضہ کشمیر میںجو مودیانہ ظلم و ستم ہو رہا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میںمودیانہ دہشت گردی کے خلاف ردِعمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اب تک اٹھاون ممالک مودیانہ دہشت گردی کے خلاف بیانات جاری کر چکے ہیں اور بہت سے ممالک میں مودیانہ مظالم کے خلاف مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہیومن رائٹس کونسل میں پچاس ممالک نے پانچ مطالبات پیش کر دیئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت عالمی ادارہ برائے پناہ گزین کے غیر معمولی اجلاس میں پچاس ممالک نے مشترکہ اعلامیے میںپہلا مطالبہ یہ کیا ہے کہ بھارت کشمیریوں سے جینے کا حق نہ چھینے اور انہیں خوشحالی سے جینے دیا جائے۔ دوسرے مطالبے میں لکھا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 47 روز سے جاری کرفیو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ تیسرے مطالبے میں بھارت سے کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں کریک ڈاؤن کی تصدیق کر چکا ہے لہٰذا سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور کشمیر میں مواصلات کو یقینی بنایا جائے۔ چوتھے مطالبے میں کئی ذیلی مطالبات رکھے گئے ہیں جن کے تحت مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کا تحفظ، شخصی آزادی اور گرفتار افراد کو رہا کرنے کے ساتھ پیلٹ گن سمیت طاقت کے بے جا استعمال سے گریز کیا جائے۔ اسی کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو دورے کی اجازت دی جائے۔ پانچواں مطالبہ یہ ہے کہ جموں اور کشمیر کے حل کے لئے پرامن طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مودیانہ دہشت گردی نے مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ہونے والے مظالم کو پوری دنیاپر آشکار کر دیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں مودیانہ دہشت گردی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموںکی بھارت مخالف رپورٹس کی بنا پر دنیا بھر میں ایک واضح فضا ہندوستان کے مؤقف کے خلاف بن چکی ہے۔ بہت سے ممالک کے پارلیمنٹ کے ارکان برطانیہ اور یورپے کے علاوہ امریکی کانگریس میں بھی بھارت مخالف قراردایں پیش کی جا چکی ہیں۔ امریکی کانگری کے ارکان نے جو بیانات جاری کئے ہیں ان میں بھی بھارتی دہشت پسندانہ اقدامات پر تشویش پائی جا رہی ہے۔ پاکستان نے فلسطین سمیت ہر مسئلے پر مسلمان ممالک کا ساتھ دیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ او آئی سی پاکستان کی حمایت میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ دہشتگرد مودی کا روّیہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ بھارت سے مقبوضہ کشمیر کی توجہ ہٹانے کے لئے کوئی چھوٹا فلیگ آپریشن طرز کا ناٹک کر سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں تیسرے فریق کی طرف سے مصالحت واحد آپشن ہے۔ خود بھارت عوام کی اکثریت نے ان مودیانہ ظالمانہ اقدامات کو قبول نہیں کیا۔بھارتی سپریم کورٹ بھی مودیا نہ اقدام کے خلاف رٹ… دائر کی گئی ہیں جن میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنا ہو گا۔ چینی سفیر نے اعلان کیا ہے کہ کشمیر پر بین الاقوامی معاہدے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں لاگو ہوتی ہیں اور وزیراعظم مودی اکیلا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔ بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 180 اردو اور انگریزی اخبارات شائع نہیں ہو رہے۔کرفیو اور سخت پابندیوں کی وجہ سے کشمیریوں کو بچوں کے لئے دودھ اور زندگی بچانے والی ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ جو کشمیر بھی گھر سے باہر نکلے بھارتی فوج اسے گولی مار دیتی ہے۔ پندرہ سو کشمیری نوجوانوں کی ملازمت فارغ کر دیا گیا ہے۔ مواصلاتی رابطے اور انٹرنیٹ بند ہے۔ بھارتی افواج گھروں پر چھاپے مارتی ہیں اور نوجوانوں پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے مظفر آباد میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عنقریب اقوام متحدہ کے پاس جائیں گے اور مسئلہ کشمیر پر 27 ستمبر کو خطاب کریں گے ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
بھارتی حکومت کے فاشسٹ نظریئے کے تحت مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی مذہبی آزادی بھی سلب کر لی گئی ہے۔
اب آتے ہیں پاکستانی سیاست دانوں کے بیانات کی طرف۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پوری دنیا کے بہت سے ممالک کے دورے کئے ہیں اور ہر ملک میں بھارتی انتہا پسندی کو بے نقاب کیا ہے۔ جو خود کو جمہوریت اور سیکولر ازم کا گڑھ بتانے کا ڈھونگ رچاتا رہتا ہے۔ وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ سلامتی کونسل جموں اور کمشیر کے تنازعہ سے جڑے پہلوؤں سے آگہا ہے انسانی حقوق کونسل کو ایک بڑا قردار ادا کرنا پڑے گا۔ مودی نے مقبوضہ کشمیر آئینی حیثیت تبدیل کر دی ہے۔ بھارت میں کشمیریوں کا مزید خون بہانے سے روکنے کے لئے اقوام متحدہ، عالمی برادری اور انسانی حقوق کونسل کو اپنا کردار اداکرنا ہو گا۔ سات دہائیوں سے بھارت کے زیر قبضہ جموں اور کشمیر کے عوام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کے منتظر ہیں لیکن بھارت ان بنیادی انسانی حقوق کو اپنے پاؤں تلے روند رہا ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر مواصلاتی پابندی سے حقائق سامنے نہیں آ رہے۔ بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کے چارٹر، قراردادوں اور عالمی قوانین کے خلاف ہیں۔ سوئس حکام کا مقبوضہ کشمیر کو ایجنڈے میں شامل کرنا خوش آئند ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی خیالی سیکولرازم کا پردہ فاش ہو گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن