شب ظلمت کے ڈھلنے کا وقت آ پہنچا ۔۔!

وادی کشمیر میں لگے کرفیو کو ساتواں ہفتہ شروع ہو چکا ہے۔دنیا کی نظروں کے سامنے کشمیر کے حالات اوجھل رکھنے کیلئے بھارت نے سارے علاقے کو زندان میں بدل دیا ہے اور وہاں سے صرف دنیا کو وہی کچھ دیکھایا جا رہا ہے جو بھارت چاہتا ہے ۔ خبر رسانی کے تمام ذرائع مکمل بند ہونے کے باوجود یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہاں کے لوگوں پہ کیا بیت رہی ہے۔ ان حالات میں جو کشمیر سے چند صحافی یا وہاں کے مقامی لوگ خبریں بھیج رہے ہیں وہ بہت دردناک ہیں ۔ کشمیر کی گلیاں لہو سے سرخ ہیں ، بہنوں کی عصمتیں تار تار ہیں ۔ اب تک دس ہزار سے زائد لوگ جیلوں میں بند کئے جا چکے ہیں ۔ اس وقت وہاں خوراک اور ادویات کی کمی سے بے گناہ انسانی جانوں کے ضیاع ہونے کا بہت بڑا المیہ جنم لے چکا ہے لیکن دنیا میں انسانی حقوق کے ٹھیکیدار اپنی زبانیں بند کئے کشمیریوں کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ بے حسی ایسی چھائی ہے کہ مسلمانوں کے خون سے زیادہ ایمازون کے آگ لگے جنگلات ان کیلئے تشویش ک باعث ہیں ۔
1946ء میں قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کی عوت پر سرینگر کا دورہ کیا جہاں قائد اعظم کی دور اندیشی نے کشمیر کی خطے میں اہمیت کو بھانپتے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ۔ مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19 جولائی 1947ء کو سردار ابراہیم کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر قرداد الحاق پاکستان منظور کی ، لیکن جب کشمیریوں کے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو مولانا فضل الہی کی قیادت میں 23 اگست 1947ء کو مسلح جدوجہد کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اور پندرہ ماہ کی مسلسل جدو جہد کے بعد موجودہ آزاد کشمیر بھارت کے تسلط سے آزاد ہوا جب کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری ستر برس کی جدو جہد کا انجام بھارت آگ اور خون سے اپنے حق میں لکھوانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس وقت وہاں یہ حالات ہیں کہ سخت ترین کرفیو جاری ہے ، کشمیریوں سے ان کا حق خود ارادیت تو بھارت نے چھینا ہی ہے اب وہ ان سے انکی زندگیاں بھی چھیننے کے در پہ ہے ۔ موبائل ، انٹرنیٹ سروس ، لینڈ لائن نمبر معطل ہیں یہاں تک کہ اخبارات اور چینل بھی بند ہیں تا کہ بیرونی دنیا تک بھارت کے مظالم کی داستانیں نہ پہنچ سکیں ۔ہندوستانی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی انتہا کر دی ہے وہ وہاں ایسا اسلحہ استعمال کر رہا ہے جس سے اب تک ہزاروں لوگ نابینا ہو چکے ہیں ۔ بھارت کی کشمیر میں ڈھائی جانے والی ریاستی دہشت گردی سے وہاں کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جو متاثر نہ ہوا ہو ، کشمیر میں اس وقت نہ ماں ، بہن ، بہٹیوں کی عزتیں محفوظ ہیں اور نہ ہی باپ ، بھائی ، بیٹوں کی جانیں ۔ انکی زندگی کا ہر دن ایک نئی آزمائش ایک نیا امتحان لے کر آ رہا ہے ، ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کا حق مانگ رہے ہیں۔ شہادتوں کا ایک نا رکنے والا سلسلہ جاری ہے لیکن بھارت یہ بھول گیا ہے کہ خون سے لکھی گئی داستانیں ظلم و جبر سے مٹائی نہیں جا سکتیں۔ گزشتہ حکومتوں کا رویہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے خاصا مایوس کن رہا اور ہماری کمزور سفارتکاری نے دنیا بھر میں کشمیر کے مسئلے کو بہت پیچھے دھکیل دیا ، یہ حکومتیں کشمیر کے حوالے سے کوئی ایک اور واضح پالیسی نہ بنا سکیں اور نہ ہی مسلم دنیا کو اس مسئلے کے حل کیلئے اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوسکیں اور کشمیر میں جاری بھارتی دہشت گردی کیخلاف ٹھوس اقدامات اٹھانے سے بھی ہمیشہ گریز برتا گیا ، خود آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بھی اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے حالانک بھارت کی پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، بھارت کو جب جب بھی موقع ملا اس نے اپنی پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا کبھی الزامات کی بوچھاڑ کر کے اور کبھی ہمارے پانیوں پہ بند بنا کر ہماری زمینوں کو بنجر کر کے ، کبھی اپنے میڈیا کے ذریعے منفی پراپیگنڈہ کر کے نفرتوں کو پروان چڑھایا ۔
مجھے اپنی حکومت اور قوم کے لوگوں میں وہ بے قراری کیوں کہیں دکھائی نہیں دیتی جو کسی قاتل کے ہاتھ جب شہ رگ پہ ہوں تو اپنی بقا کی جنگ لڑنے کیلئے انسان تڑپ اٹھتا ہے ۔ جان ہر انسان کو پیاری ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے شاید ابھی ہمارے لوگوں کو کشمیر جان سے پیارا نہیں ہوا اسی لئے تو وہاں پر ظلم کا کو ہ گراں ٹوٹ رہا ہے مگر یہاں لوگوں کو اپنی پڑی ہے ، ہماری زندگی کے میلے اسی طرح جوبن پر ہیں اور کشمیر کی مٹی سے صدائیں اٹھ رہی ہیں ۔ بھارتی فوج کے ظالم بھیڑئیے کشمیر کی جانب جب مکروہ نگاہ ڈالتے ہیں تو پھر بستیاں جلتی ہیں ، عصمتیں لٹتی ہیں ، لہو گلیوں میں رستا ہے، زمین کانپتی ہے اور آسمان روتا ہے۔
حکومت کو اس وقت کشمیر کے حوالے سے بہت زیادہ سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے محض ٹوئیٹر پہ بیانات یا جمعے کے روز آدھا گھنٹہ احتجاج کر کے کشمیر آزاد نہیں کروایا جا سکتا ، دشمن نے آپ کی شہ رگ کاٹ دی ہے ا ب ضرورت اس امر کی ہے کہ سخت فیصلے لیے جائیں سب سے پہلے تو فوری طور پربھارت کیلئے فضائی حدود بند کی جائیں ، بھارت کی براستہ پاکستان افغا نستان تجارت کو روکا جائے ۔ ایسی مضبوط سفارتکاری ہو جو کشمیریوں اور پاکستانیوں کے دل کی آواز ساری دنیا کے سامنے پہنچا سکے ۔ جس کی آواز کی گونج عالمی سطح پر ہر فورم پہ سنائی دے جو دنیا کے ضمیر جھنجھوڑ دے جو ہماری امنگوں کی ترجمانی کر سکے ۔ ہمیں اس وقت ایک ایسے عیار اور سفاک دشمن کا سامنا ہے جو کہ ظلم بھی خود کرتا ہے اور دنیا کے سامنے مظلوم بھی خود بننے کی کوشش کرتا ہے اور ساری دنیا کے سامنے اپنا سیکولر ، ترقی اور امن پسند چہرہ دکھانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے ۔
میری وزیر اعظم پاکستان سے پر زور اپیل ہے کہ سب سے پہلے ان کے ارد گرد جو ایسے حکومتی مشیران موجود ہیں جو اپنے سطحی مشوروں سے معاملات کو غیر سنجیدہ بنا رہے ہیں ان کو اس معاملے سے الگ کیا جائے ، اس وقت انتہائی ضروری ہے کہ ایک ایسی مربوط اور جامع حکمت عملی اپنائی جائے جو فیصلہ کن ہو ۔ محض کشمیر سے یکجہتی منانے سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...