پاکستان پاک لوگوں کی سرزمین ہے اللہ تعالی نے اس کو رہتی دنیا تک قائم رہنے کے لیے بنا یاہے اس پاک معاشرے میں مذہب سے دوری نے مسلمانوں کواپنی شناخت ہی بھلا دی ہے اب مسلمان اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کے قابل بھی نہیں رہے یہ ان لوگوں کو کہا جا رہا ہے ۔جہنوں نے اپنی قدریں بھلا دی ہیں اور دوسروں کی بہن،بہو ،بیٹیوں کو اپنی بہن، بیٹی اور بہو سمجھنے کی بجائے ان پر نیت بد کرتے ہیں۔ ریپ ہمارے معاشرے میں کبھی تھا ہی نہیں یہ سفاکیت انڈیا سے آئی ہے ۔جہاں پر یہ واقعات عام تھے اور کسی کی بہن ،بیٹی محفوظ نہیں تھی انڈیا نے ثقافتی جنگ جیتنے کے لیے ہماری نوجوان نسل کے اخلاق کو تباہ کر نے کے لیے اپنا گندہ، غلیظ کلچر بذریعہ مویز دیکھا دیکھا کر ہماری نوجوان نسل کے کردار کو تباہ کردیا ہے ۔یوٹیوب ، فیس بک اور سوشل میڈیا پر اخلاق باختہ چیزیں اور فحش ویڈیوز دیکھا دیکھا کر نوجوان نسل مکمل تباہ ہو چکی ہے اور دن رات اس قسم کی خرافات دیکھ کر ان میں حلال اور حرام کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی۔دوسری اہم وجہ سود کا پیشہ، ہمارے ملک میں سود کا کاروبار ہر سطح پر کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے بچے لقمہ حرام کھا رہے ہیں والدین کم آمدنی کی وجہ سے رزق حرام کمانے پر مجبور ہیں اپنے گھر کا خرچہ چلانے اور بچوں کی ضروریا ت پوری کرنے کی غرض سے پورا معاشرہ آجکل ناجائز طریقوں سے روپیہ کما ریا ہے جس گھر میں رزق حرام آتا ہو وہاں حلال راستوں پر کون چلتا ہے دوسرا سود کا پیشہ اورکاروبار معاشرتی بگاڑ کی سب سے اہم وجہ ہے ۔ دوسروں کو اچھے حال میں دیکھ کر سب کا دل کرتا ہے کہ انکے حالات بھی اچھے ہوں ان کو دیکھ کر لوگ سود اور رشوت کے راستے پر چل پڑتے ہیں دوسروں کے پاس نیوگاڑی دیکھ کر خود بھی قسطوں پر نئی گاڑیاں نکلوائی جاتی ہیں اور انکی رقوم بمع سود ادا کی جاتی ہیں اور سود کے بارے میں قرآن نے صاف الفاظ میں بتایا کہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے خلاف جنگ ہے ۔نعوز باللہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ نہیں کر سکتے ہیں۔جب یہ سب برائیاں معاشرے میں پروان چڑھیں گی تو معاشرہ ایسا ہی تباہ حالی کا شکار ہوگا اس معاشرے میں کسی کی بہن ،بیٹی کی عزت محفوظ نہ رہ سکے گی ۔گزشتہ روز سٹرک پر جب 3بچوں کی ماں کو رات کے اندھیر ے میں بے آبرو کیا تو اس موقع سب کی چیخیں نکل گئی ہیں ہم اتنے غلیظ معاشرے میں رہ رہے ہیں ہم اس کو ریاست مدینہ سے کہتے ہیں؟ ہم تو پاکستان کو پاک لوگوں کی سرزمین بھی کہنے کے حقدار نہیں رہے کیونکہ یہاں کے لوگ پاک نہیں پلید ہوچکے ہیں انکے اخلاق و کردار کو دیمک چاٹ چکی ہے اور ہم سے تو اچھے غیر مسلم ممالک ہیں جہاں کوئی بھی خاتوں آدھی رات کو بھی محفوظ سفر کر سکتی ہے اسلام نے تو عورت کو بہت سے حقوق اور معاشرتی تحفظ عطا کیا تھا ۔اگر مذہب کی تعلیم و تبلیغ صحیح طرح سے کی جاتی ہم مغرب کی تقلید میں انہیں انگریزی تہذیب نہ سکھا تے بلکہ مذہبی اور دینی تعلیم دیتے ان کے کردار کی تکمیل و تعمیر کرتے تو مسلمان معاشرہ آج ایسا نہ ہوتا۔اب تو کوئی حال ہی نہیں رہ گیا یہ درندے نہ بچوں کو چھوڑتے ہیں ،نہ بچیوں کو ،نہ بوڑھی عورتوں کو نہ نوجوان کو نہ شادی شدہ نہ بیوہ کو یہاں تک کہ یہ ظلم اب بے زبان جانوروں کے ساتھ ہونے لگ گیا ہے یہ کونسا معاشرہ ہے جہاں کے لوگ اس قدر ہوس کے بچاری بن گئے ہیں درندے اور بھیڑے بن گئے ہیں معاشرے کے اندر اس تمام تر غلاظت کو دور کرنے کی کچھ تجاویز ہیں اگر ن پر غور کر کے عمددآمد کروایا جائے تو ممکن ہے ہم اپنا تشخص بحال کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔
سب سے پہلے سکولوں میں اسلامی تعلیمات ،اخلاقیات اور سزا و جزا پر تعلیم دی جائے ۔گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے اقدامات اس سلسلے میں لائق تحسین ہیں جہنوں نے ہر سکول میں قرآن ناظرہ بمع ترجمہ پڑھانا لازمی قرار دیا ہے۔ اس کے بعد ہر سکول میں اسمبلی کے دوران بچوں کو اپنے کردار کو سنوار نے کے لیے دینی اور تاریخ اسلام سے مثالیں دی جائیں۔ تیسرے نمبر پر محکمہ سول ڈیفنس کے افسران کو تعینات کیا جائے ان کا ایک افسران ہر سکول میں جائے اور بچوں کو سیلف ڈیفنس کی تعلیم دے ہمارے بچے سکول جاتے ہیں جہاں پر انہیں اپنے دفاع کی تعلیم ہرگز نہیں دی جاتی،موجودہ حالات میں لڑکا اورلڑکی سب کی عزت خطر ے میں ہیں ایسے حالات میں اپنا دفاع (Self Defence) بے حد ضروری ہے اس لیے بچوں کی پڑھائی ،اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ انکے سکولوں میں مارشل آرٹس اورجوڈو کراٹے کی تعلیم لازمی قرار دی جائے تاکہ کسی قسم کی ناخوشگوار صورتحال پر قابو پانے کے لیے ہمارے بچے پوری طرح سے تیا ر ہوں۔گھر پر بھی پچوں کو اپنے ملازمین اور ڈرائیو حضرات سے خطرہ ہو سکتا ہے اگر سیلف ڈیفنس کی تربیت حاصل ہوتو بچے گھر وں میں مدرسوں اور دیگر مقامات پرا پنا دفاع کرسکتے ہیں بچے ہمارا سرمایہ ہیں ان کی زندگی پر امن بنانا ہمار فرض ہے جس سے ملک میں قانون کی بالادستی ہونا انتہائی ضروری ہے قانون کی بلادستی ہو اور اس قسم کے دلخراش واقعات کی روک تھام کر سکیں ۔مجرموں کو سٹرکوں اور چوراہوں پر پھانسی دی جائے تو ہی ملک میں امن قائم ہوگا بصورت دیگر یہاں جنگل کا قانون ہوگا اور یوں ہی آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہنے سے ہم سب غیر محفوظ ہو جائیں گے اور وہ دن دور نہیں کہ ایک دن ہم بھی ان طالموں کے ظلم کا شکار ہوجائیں گے۔اللہ ہم سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور پاکستا ن کو صحیح معنوں میں پاک لوگوں کی سر زمین بنائے (آمین)