لاہور ( وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کی منی لانڈنگ کیس کی عبوری ضمانت کی درخواست پر مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں گذشتہ روز تک توسیع کر رکھی تھی اور فریقین کے وکلا کو بحث کیلئے طلب کر رکھا تھا۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعاکی کہ شہباز شریف کی گرفتاری کی وجوہات کو ریکارڈ پر لانے کا حکم دیا جائے۔ بار روم میں بڑی باتیں گردش کر رہی تھیں کہ نیب کی ٹیم شہباز شریف کو گرفتار کرنے آئی ہے۔ گرفتاری کی وجوہات سے کوئی پاکستان بھارت تعلقات خراب ہونے کا خدشہ نہیں ہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ عدالت کارروائی شروع کرے۔ عدالت نے کہا کہ کیس کے دلائل شروع تو کریں جو کاغذات آپ کو چاہئیں وہ نیب فراہم کر دے گا اگر آپ دستاویزات کے بغیر بحث کرسکتے ہیں تو کرلیں۔ جس پر وکیل نے کہا کہ بغیر دستاویزات کے بحث مکمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ عدالت نے نیب وکیل سے استفسار کیاکہ بتائیں ملزم شہباز کو کیوں گرفتار کرنا ہے جس پر نیب کے پراسیکیوٹر بتایا کہ تفتیش ابھی جاری ہے، شہباز شریف کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں۔ شہباز شریف نے ہمیشہ کہا کہ جب وہ باہر جائیں گے تو تفصیلات لا کر بتائیں گے۔ جس پر وکیل شہباز شریف نے کہا کہ آپ تو کہہ رہے ہیں وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے گئے۔ عدالت نے کہا کہ آپ فائل کھولیں اور اپنا کیس بیان کریں آپ کو سن لیتے ہیں اگر ضرورت ہوئی تو آپ کو گرفتاری کی وجوہات بھی لے کر دیں گے۔ شہباز شریف نے عدالت کو بتایا کہ میں بیان حلفی دینے کو بھی تیار ہوں کہ نیب حکام نے مجھے میری حد تک تفتیش مکمل ہونے کا کہا تھا ۔ اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ پورے ملک میں شور ہے کہ اے پی سی کے بعد شہباز شریف کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ نیب کے پراسیکیوٹرنے کہا کہ شہباز شریف کی یہ درخواست پہلے سے زیر سماعت ہے۔ ایسی بات نہ کریں۔ فاضل عدالت نے استفسار کیا کہ عبوری ضمانت میں کیوں گرفتاری کی وجوہات کی ضرورت ہے؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ قانون کے مطابق یہ شہباز شریف کا حق ہے۔ عدالت نے کہا کہ آپ کیس اوپن تو کریں وکیل نے کہا کہ شہباز شریف کی آزادی خطرے میں ہے۔ عدالت نے کہا کہ آپ دلائل شروع کریں آپ کے تمام سوالوں کے جواب نیب سے مانگیں گے۔ شہباز شریف کے دوسرے وکیل نے دلائل میں عدالت کوبتایاکہ7 نومبر 2017ء میں چیئرمین نیب نے پنجاب کی 56 کمپنیوں کی تشکیل پر شہباز شریف کیخلاف انکوائری کا حکم دیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ مجھے تفتیشی افسر نے کہا کہ تفتیش مکمل ہوچکی ہے۔ نیب نے بطور وزیراعلی پنجاب طلب کیا جس پر لبیک کہا۔ وکیل نے کہا کہ اگر عدالت کی اجازت ہو تو شہباز کرسی پر بیٹھ جائیں؟ جس پر عدالت نے کہا جی کیوں نہیں بیٹھ جائیں یہ پاکستان میں ہی ہے کہ ملزم کھڑا رہتا ہے۔ سماعت کے موقع پرشہباز شریف نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگوکی۔ اس سوال پر کہ تقریر کرتے ہوئے نواز شریف تندرست لگ رہے تھے اوروہ واپس کب واپس آٓرہے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کی صحت کے بارے میں ڈاکٹرز ہی بتا سکتے ہیں۔ کسی نقطے پر اختلاف رائے رکھنا جمہوریت کا حسن ہے۔ تمام جماعتوں کو ایک نقطے پر لانا آسان کام نہیں۔ اس مرتبہ اے پی سی میں سیمنٹ لگایا دراڑیں نہیں پڑیں گی۔