اسلام آباد‘ لاہور (سپیشل رپورٹ‘ خصوصی نامہ نگار) گزشتہ روز ایوان صدر میں وحدت امت کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت ڈاکٹر عارف علوی نے کی۔ کانفرنس نے اتفاق رائے سے ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ مذہب کے نام پر دہشتگردی، انتہا پسندی، فرقہ وارانہ تشدد، قتل و غارت گری خلاف اسلام ہے اور تمام مکاتب فکر اس سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ کوئی مقرر، خطیب ذاکر یا واعظ اپنی تقریر میں انبیائ، اہل بیت اطہار، اصحاب رسول، خلفاء راشدین، ازواج مطہرات، آئمہ اطہار اور حضرت امام مہدی کی توہین، تنقیص و تکفیر نہیں کرے گا، اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو ایسے شخص کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائیگی۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ کسی بھی اسلامی فرقے کو کافر نہ قرار دیا جائے اور کسی بھی مسلم یا غیر مسلم کو ماورائے عدالت واجب القتل قرار نہ دیا جائے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق تمام مذاہب و مسالک کے لوگ اپنی ذاتی و مذہبی زندگی گزاریں۔ شر انگیز، دل آزار کتابیں، پمفلٹوں، تحریروں کی اشاعت، تقسیم نہ کی جائے۔ اشتعال انگیز اور نفرت آمیز مواد پر مبنی کیسٹوں انٹرنیٹ ویب سائٹوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ عوامی سطح پر مشترکہ اجلاس منعقد کر کے ایک دوسرے کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے۔ پاکستان میں مسلمانوں کیساتھ غیر مسلم بھی رہتے ہیں لہذا اسلامی شریعت کے مطابق غیر مسلموں کی عبادت گاہوں اور ان کے جان و مال کی حفاظت مسلمانوں اور حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے لہذا غیر مسلموں کی عبادت گاہوں اور ان کے مقدسات اور ان کے جان و مال کی توہین کرنے والوں سے حکومت سختی سے نمٹے۔ حکومت ایکشن پلان پر بلا تفریق مکمل عمل کرے۔ پیغام پاکستان ایک متفقہ دستاویز ہے جس کو قانونی شکل دینے کیلئے فوری طور پر مشاورتی عمل شروع کیا جائے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں دیا جانیوالا فتویٰ ہی معتبر ہو گا۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کیخلاف دیئے جانے والے فتووں پر فوری ایکشن لیا جائے۔ محرم الحرام کے دوران اور اس سے قبل مقدس شخصیات کی توہین اور تکفیر کرنے والے عناصر کیخلاف فوری کارروائی کر کے انہیں سزائیں دی جائیں۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر علوی نے کہا کہ ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہو گا، ایک قوم بننے کیلئے ہمیں تفرقہ بازی سے بچنا ہو گا۔ صدر نے کہا کہ جذباتی تقرریوں سے نفاق اور تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مسلمان پہلے ہی نا اتفاقی سے بڑا نقصان اٹھا چکے ہیں۔ ماضی میں ایران اور عراق کو لڑایا جاتا رہا، ان ملکوں کی لڑائی سے دس لاکھ لوگ جان سے گئے۔ صدر نے کہا کہ پاکستانی قوم نے انتہا پسندی اور دہشتگردی کیخلاف کامیابی سے جنگ لڑی ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ امت کی وحدت کا مرکز ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے حضورؐ کی ناموس کی حفاظت کیلئے دوٹوک موقف اپنایا۔ پاکستان علماء کونسل کی دعوت پر ایوان صدر اسلام آباد میں وحدت امت کانفرنس کا انعقاد کیاگیا تھا جس کے مہمان خصوصی صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف الرحمن علوی تھے، کانفرنس میں ملک بھر سے دو سو سے زائد علماء و مشائخ، اکابرین، اسلامی اور عرب ممالک اور یورپی ممالک کے سفراء نے شرکت کی، کانفرنس سے صدر آزاد کشمیر سردار مسعود، وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری، پیر نقیب الرحمن، صاحبزاد حسان حسیب الرحمن ، علامہ عارف واحدی ، سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بھی خطاب کیا۔ چیئرمین پاکستان علماء کونسل اور صدر دارالافتاء پاکستان حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے مشترکہ اعلامیہ پیش کیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تمام مکاتب فکر کے قائدین نے مشترکہ اعلامیہ کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اصحاب رسول و اہل بیت اور مقدسات کی توہین کرتے ہیں تمام مکاتب فکر کی قیادت ان سے برات کا اعلان کرتی ہے اور حکومت ایسے افراد کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرے۔کانفرنس میں کہا گیا کہ مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد وقت کی ضرورت ہے ، مسلم مملک کو کمزور کرنے کیلئے داخلی انتشار پیدا کیا جا رہا ہے ، مسلم ممالک میں بیرونی مداخلتیں بند ہونی چاہئیں ، مسلمان اپنے مقدسات ارض حرمین شریفین کے تحفظ اور سلامتی کیلئے متحد ہیں۔ کانفرنس میں ایک مشترکہ قرارداد کے ذریعے محرم الحرام میں امن و امان کے قیام میں حکومت ، ملک کے سلامتی کے اداروں ، افواج پاکستان کی کوششوں کو سراہا گیا اور ملک میں امن و امان کیلئے مکمل تعاون کا اعلان کیا گیا۔ کانفرنس میں ایک اور قرار داد کے ذریعے مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کی عوام کی جدوجہد کی مکمل تائید وحمایت کا اعلان کیا گیا اور مسلم دنیا اور اقوام عالم سے مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے فوری حل کیلئے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا۔ کانفرنس میں علامہ غلام اکبر ساقی، علامہ افضل حیدری، صاحبزادہ حامد رضا ، مولانا محمد رفیق جامی ، مولانا عبد الکریم ندیم، قاری زاہد فاروقی، پیر صاحب مانکی شریف، سید ضیاء اللہ شاہ بخاری ، مولانا محمد خان لغاری ، علامہ عارف واحدی، حافظ کاظم رضا ، علامہ زاہد حسین ، شفقت حسین بھٹہ ، مولانا نعمان حاشر ، مولانا محمد شفیع قاسمی ، مولانا محمد ایوب صفدر، مولانا زبیر عابد، علامہ طاہر الحسن، مولانا اسد اللہ فاروق، مولانا اسعد زکریا قاسمی، مولانا محمد اشفاق پتافی ، مولانا اسلم صدیقی ، مولانا عمار نذیر بلوچ، مولانا عصمت اللہ معاویہ ، قاری طیب شاد قادری، پیر اسعد حبیب شاہ جمالی ، مولانا عبید الرحمن گورمانی ، مولانا عزیز اکبر قاسمی ، مولانا سعد اللہ لدھیانوی، مولانا عبد القیوم فاروقی ، مولانا احسان احمد حسینی، مولانا طاہر عقیل اعوان، مفتی حفیظ الرحمن ، مولانا محمد شہباز نعمانی ، مولانا ابو بکر صابری، مولانا الیاس مسلم ، مولانا انوار الحق مجاہد، مفتی عمر فاروق ، مولانا شکیل الرحمن قاسمی، مولانا عبد الحکیم اطہر، قاری مبشر رحیمی، مولانا راشد منیر ، مولانا زبیر کھٹانہ، مولانا عثمان بٹ، مولانا تنویر چوہان، مولانا عقیل زبیری، مولانا قاسم قاسمی، مولانا اصغر حسینی، مولانا سعد اللہ شفیق، مولانا مطلوب مہار، مولانا عبد الرؤف اور دو سو سے زائد علماء و مشائخ شریک تھے۔