پاکستان میں بھیگ مانگنا منافع بخش اور منظم کاروبار بن چکا ہے ۔ کوئی وقت تھا کوئی انتہائی لاچار یا بے بس انسان ایسا کام کرنے پر مجبور ہوتا تھا۔ اب تو باقائدہ ایسے گرو ہ وجود میں آچکے ہیں جو معذور افراد جن میں چھوٹے بڑے مرد عورتیں شامل ہیں انکو کرائے پر حاصل کرتے ہیں اور انہیں گاڑیوں میں بیٹھا کر کسی چوراہے یا بس سٹاپ پر چھوڑ آتے ہیں۔یہ معذور افراد مجبوراً ان کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے اداکاری کر کے بھیگ مانگتے ہیں۔ان منظم گروہوں نے نگرانی کے لیے باقائدہ افراد پال رکھے ہیں۔ان کی اجازت کے بغیر کوئی کسی بس سٹاپ پر یا چوراہے میں بھیگ نہیں مانگ سکتا ۔بس سٹاپ چوراہے ان گروہوں میں آپس میں تقسیم کر رکھے ہوتے ہیں۔جو کوئی معذور مجبور کسی بس سٹاپ پر کسی چوراہے میں بھیگ مانگنا چاہتا ہے تو ان منظم گروہوں سے فیس ادا کر کے اجازت حاصل کر سکتا ہے ۔ ان منظم گروہوں( غنڈا افراد) کی اجازت کے بغیر کوئی کسی شارع پر یا بس سٹاپ پر بھیگ نہیں مانگ سکتا ۔ان منظم گروہوں کے اصولوں کی خلاف ورزی پر بھیگ مانگنے والے کو یا تو اس کاروبار کو خیر آباد کہنا پڑتا ہے یا پھر جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتا ہے ۔بھیگ مانگنے والوں کی ایک اپنی ہی دنیا ہوتی ہے ۔وہ اس منافع بخش کاروبارسے قطع دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہوتے ۔بھیگ مانگنے والوں کے ذہن میں مختلف طرح کے طریقے موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک گروہ شہروں سے دیہات کی طرف جانے والی بسوں میں کسی دیہات کے نذیک بس سٹاپ سے بس میں سوار ہو جاتا ہے اور بغل سے ایک بوسیدہ سی فائل نکالتا ہے اور درد بھری آواز میں مخاطب ہوتا ہے ــ، مایو، بہنوں اور بھائیوں میں فلاں یتیم خانے کی طرف سے آیا ہوں سلام عرض کرنے کے بعد گزارش کرتا ہوں کہ یتیم بچوں کی گزر بسر کا ذریعہ آپ کے صدقات اور خیرات ہیں۔ ان یتیم بچوں کے ماں باپ منوں مٹی تلے ابدی نیند سو رہے ہیں۔آپ ان یتیموں کی سر پرستی کرتے ہوئے اُن کے لیے کچھ عنائت کر دیں یہ نیکی آپ کے کام آئے گی۔ بس میں سوار دیہات سے تعلق رکھنے والے مردوں سے زیادہ عورتیں ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔یہ بھیگ مانگنے کا ایک طریقہ ہے حالانکہ ایسے افراد کا تعلق کسی یتیم خانے سے نہیں ہوتا ہے اس کے علاوہ شہروں کے گردو نواح میں چھوٹی چھوٹی بستیوں کچھ اوڈ قسم کی عورتیں نیم بے ہوش بچہ گود میں لیے بھیگ مانگتے پھرتی ہیں ۔یہ بچہ بھی اپنی فیملی کی کسی خاتون سے کرایہ پر لیا ہوتا ہے ۔بچے کو کوئی ایسی شے کھلائی جاتی ہے تا کہ وہ ہر وقت سویا رہے ۔ اس کے علاوہ انہی کی بچیاں بھیگ مانگنے کے لیے اس طرح پیچھے پڑ جاتی ہیں خصوصاً خواتین کے کچھ لیے بغیر جان نہیں چھوڑتی ۔ پولیس کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے اِدھر اُدھر ہو جاتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان خواتین کے مرد کیا کام کرتے ہیں۔ہوتے تو یہ جھگی نشین ہیںلیکن عورتوں کی بھیک پر نشے کرتے ہیں۔ منشیات فروشی اسلحہ تک فروخت کرتے ہیں اور یہ بے رحم ڈاکو بھی ہوتے ہیں۔دوران ڈاکہ مذاحمت پر خود بچانے کے لیے قتل تک کرتے ہیں۔پکڑے تو جاتے ہیں لیکن پاکستان میں کون سا جزا سزا کا نظام ہے جو ان کو سزا ملے۔ اس کے علاوہ بھیگ کے اصول لے لیے کچھ ہٹے کٹے مرد بھی معذوری کی ایسی ایکٹنگ کرتے ہیں کہ پاس سے گزرنے والے کو ترس آجاتا ہے ۔اپنی پشت پر ایک گدی باند کر ہاتھ ٹیک ٹیک کر اور ٹانگیں پھیلا کر کھسکتے کھسکتے آگے بڑھتے ہیں گو یا کہ وہ معذور ہیں۔ لیکن پولیس کی گاڑی ان کے پاس رکتی ہے ابھی گاڑی سے کوئی ملازم اترتا ہی نہیں کہ یہ پشت پرباندی گدی سمیت بھاگ کر کسی تنگ گلی میں چلا جاتا ہے۔اسلام میں بھیگ مانگنے کا تصور نہیں ہے اس لیے اسلام میں زکوٰۃ ،عشراور خیرات کا ایسا منظم نظام ہے جو ضرورت مندوں ، غریب بیوہ عورتوں ، یتیم بچوں اور بے بس ، بے کس ، ضعیف مرد عورتوں کو ان کی ضرورت کی امداد گھر جا کر دینے کا حکم ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ آوازیں لگائی جائیں آؤ خیرات زکوٰۃ لے لو ۔ زکوٰۃ اور خیرات کا اسی طرح حکم ہے جس طرح نماز پڑھنے کا حکم ہے ۔ ضیاء الحق نیک دل انسان تھے انہوں نے محسوس کیا کہ بڑے بڑے امیر کبیر زکوٰۃ نہیں دیتے ۔ تو انہوں نے بینکوں میں جمع شدہ رقم میں سے زکوٰۃ کی کٹوتی کا قانون بنایا تھا۔لیکن یہ نظام ناکام ہو چکا ہے اس لیے کہ بینکوں سے حاصل شدہ زکوٰۃ کی رقم ضرورت مندوں تک پہنچانے کے لیے جن افراد کو یہ رقم دی جاتی ہے وہ کنبہ پروری کرتے ہیں۔ مستحق افراد تک تھوڑی رقم پہنچتی ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے کہ وہ کسی کی جمع شدہ رقم سے زکوٰۃ کی کٹوتی کریں۔ مساجد صرف نماز پڑھنے کے لیے نہیں ہوتی یا علمائے دین کے تفرقہ بازی کے لیے نہیں ہوتی بلکہ یہ دین کی اصلاح کے لیے ہوتی ہیں۔ مساجد کے آئمہ اکرام کا فرض ہے وہ اہل ایمان کو اس فرض کی ادائیگی کے لیے تر غیب دیں ۔حکم الہٰی یہ ہے کہ آپ جس کو زکوٰۃ ٰخیرات بے وجہ غربت ادا کریں اس پر احسان نہ رکھیں نہ اس کے بدلے اس سے کچھ کام لیں ورنہ آپ ثواب سے محروم ہو جائیں گے ۔اس کے لیے خود مالک کائنات نے پارہ نمبر3آیت نمبر254میں اپنے نبی ؐ سے فرمایا ہے ۔ کہ اے نبی ؐمیرے اُن بندوں کو جو ایمان لائے ہیں کہ دو کہ وہ دن آنے سے پہلے میرے دیے ہوئے رزق سے میرے بندوں پر خرچ کرو جس دن نہ کوئی کسی کی سفارش کام آئے گی نہ دوستی اور نہ ہی سودا بازی کام آئے گی۔ اسی طرح سورۃ ابراہیم آیت نمبر31میں یہی فرمان دہرایا گیا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ خرچ میرے بندوں سے مراد غریب انسان ، غریب خاندان ، غریب بیوہ خواتین اور یتیم بچے سب سے زیادہ حقدار ہیں ۔ آپ کے پڑوس میں خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھنے والا کوئی خاندان ہو اس کی مدد کرنا آپ پر فرض عائد ہے ۔ یہ اسلام کے طے شدہ اصول ہیں۔ضرورت مندوں بے کسوں غریبوں ، بے بسوں کی مدد کرنا فرض عائد کر دیا گیا ہے۔ بلکل اسی طرح جیسے نماز پڑھنا فرض ہے ۔ اللہ رب العزت انسانوں پر بے حد مہربان ہیں۔اُس کی مخلوقات میں سے انسان ہی واحد مخلوق ہے جس کے متعلق اللہ رب العزت خود فرماتے ہیں کہ میں نے انسان بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ، نمایاں فضلیت لیکن رب العزت انسانوں کو آزماتے ہیں کہ کیا میرے بندے میرے دیے ہوئے رزق سے میرے بندوں جو اُن کے ہم جنس ہیں مدد کرتے ہیں ۔