سیاسی قائدین کا یہ وطیرہ ہے کہ جب بھی اقتدار میں آتے ہیں تو فوج کا سہارا لیکر آتے ہیں لیکن اقتدار سے محروم ہوکر فوج کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں۔ اس طرز عمل کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ پاکستان جب انگریزوں سے آزاد ہوا تو ہم اس ملک کو نہیں سنبھال سکے ۔ نہ تو اسلامی فلاحی ریاست کا نظام رائج ہوسکا اور نہ ہی عوام کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے ہم بنیاد ی اور ضروری کوئی تبدیلیاں کر پائے ہیں بلکہ ہم نے مکمل طور پر نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔ اﷲ پاک نے آزادی کی صورت میں ہمیں جو نعمت عطا فرمائی ‘ ہم اسے سنبھال نہ پائے اور آج پاکستان ہر زاویئے سے ”مسائلستان“ بن چکا ہے۔انگریزوں کے دور میں تو پھر بھی انصاف کے تقاضے پورے کئے جاتے تھے لیکن آزادی کے بعد انصاف ناپید ہوچکا ہے۔
خدارا۔ اس ملک کو قائد اعظمؒ کا پاکستان بنانے کیلئے سب سے پہلے سرکاری زبان اردو کو رائج کیا جائے اور پورے ملک میں سرکاری دستاویز‘ عدالتی فیصلے ‘ سرکاری فارم‘ بینکوں کے فارم سمیت عام آدمی کے لئے تمام سرکاری دستاویزات اردو میں ہونی چاہئیں اور اس پر فوری طور پر سختی سے عملدرآمد کا آغاز ہونا چاہئے۔ عوام کی اکثریت انگریزی سے ناواقف ہے ۔ انتخابی نظام میں تبدیلی کرکے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کرائے جائیں اور جس جماعت کو ملک بھر میں جتنے ووٹ ملیں اسی شرح سے اسے وفاق اور صوبے میں نشستیں ملنی چاہئیں۔ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات سے سیاست سے دولت کا عنصر بھی ختم ہوگا اور کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوگا۔ سیاسی جماعت کا سربراہ اپنی جماعت کے امیدواروں کی فہرست الیکشن کمیشن میں دے گا ۔ اچھے و ایماندار افراد کی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کرانا پارٹی سربراہ کی ذمہ داری ہوگی۔
سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کیلئے ججوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ضروری ہے کیونکہ فی الوقت دیکھا گیا ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کیسز کی سالہا سال تک تاریخ نہیں ملتی اور کاز لسٹ میں نام آنے کے باوجود کیسز کی زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے کیسز کی شنوائی نہیں ہوپاتی۔ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کےلئے اہم ترین امور پر قومی اتفاق رائے پیدا کرکے قومی ایجنڈے کا اعلان کریں۔ عدالتیں پابند ہوں کہ دیوانی مقدمے کا فیصلہ ایک سال اور فوجداری مقدمے کا فیصلہ ہر صورت 6ماہ میں کیا جائے اور ان فیصلوں پر اپیلوں پر بھی ہائی کورٹ و سپریم کورٹ 3ماہ میں فیصلہ دے اور یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب ججوں کی تعداد میں فوری نمایاں اضافہ کیا جائے۔ انصاف کی تاخیر سے فراہمی بھی دراصل ناانصافی ہے۔
کالا باغ ڈیم سمیت تمام چھوٹے بڑے آبی ذخائر کی فوری تعمیرکیلئے قومی اتفاق رائے کی منظوری سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے اور اس کےلئے جتنا جلدی ممکن ہو‘ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔نئے صوبوں کا قیام بھی ضروری ہے۔ پاکستان کی آبادی 22کروڑ ہے جبکہ صرف 4صوبے ہیں۔ اس طریقے سے کبھی بھی مسائل حل نہیں ہوسکتے بلکہ مسائل میں مسلسل اضافہ ہی ہوگا۔ جن ممالک میں عوام کی زندگی آسودگی سے گزر رہی ہے وہاں آبادی اور صوبوں کی تعداد بہت معنی رکھتی ہے۔ ایران کی آبادی 8کروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن وہاں 31صوبے ہیں۔ ایران میں تقریباً ہر 26لاکھ کی آبادی کے لئے ایک الگ صوبہ ہے۔ ترکی کی آبادی بھی 8کروڑ کے لگ بھگ ہے جبکہ وہاں 81صوبے ہیں۔ ترکی میں ہر 10لاکھ کی آبادی کے لئے ایک صوبہ ہے۔ ملائشیا کی آبادی 3کروڑ ہے جبکہ وہاں 24صوبے ہیں۔ ملائیشیا میں ہر ساڑھے بارہ لاکھ کی آبادی کےلئے ایک صوبہ ہے۔ امریکہ کی آبادی 35کروڑ کے لگ بھگ ہے جبکہ وہاں 54ریاستیں ہیں۔ امریکہ میں ہر ساڑھے چھ لاکھ افراد کےلئے ایک الگ صوبہ۔ ریاست ہے۔ جاپان کی آبادی 13کروڑ کے لگ بھگ ہے جبکہ وہاں 47صوبے ہیں۔ جاپان میں ہر 28لاکھ کی آبادی کیلئے الگ صوبہ ہے۔ پاکستان میں 22کروڑ کی آبادی کیلئے صرف 4صوبے ہیں۔ اس طرح ہر ساڑھے پانچ کروڑ آبادی کےلئے ایک صوبہ ہے۔
ہمیں فوری طور پر نئے انتظامی صوبوں کے قیام پر قومی اتفاق رائے پیدا کرکے ہر ڈویژن کو اسی نام سے انتظامی صوبہ قرار دینا ہوگا اور صوبوں کے نام کسی بھی صورت میں لسانیت کی بنیاد پر نہ ہوں بلکہ اس وقت جس ڈویژن کا جو نام ہے‘ اسی نام سے اسے صوبہ قرار دیا جائے اور صوبائی حکومت کا دائرہ اختیار اسی صوبے (موجودہ ڈویژن) تک ہونا چاہئے۔ تمام صوبے اپنے معاملات میں خودمختار ہوں اور وفاق میں صرف 4وزارتیں ہوں جن میں خزانہ‘ خارجہ‘ دفاع اور داخلہ کی وزارت ہو‘ اسکے علاوہ تمام وزارتیں و اختیارات بتدریج صوبوں کو ملنے چاہئیں اور صوبے بھی چند اہم امور اپنے پاس رکھ کر باقی تمام امور و اختیارات بتدریج ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کو تفویض کرکے ایسا بلدیاتی نظام رائج کریں جس میں بلدیاتی نمائندوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات و وسائل حاصل ہوں تاکہ وہ بنیادی سطح پر ہی عوام کے مسائل انکی دہلیز پر حل کرسکیں۔ایسا بلدیاتی نظام ہو جس میں ترقیاتی منصوبے مقامی ناظمین‘ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی مشترکہ ترقیاتی کمیٹی منظور کرے جبکہ ان منصوبوں پر عملدرآمد مقامی کمشنر و ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری ہو۔
بدقسمتی سے ملک کے عوام کو مسائل کی دلدل میں دھکیل کراب بھی ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کس سمت میں سفر کریں تو مسائل سے نکل سکتے ہیں۔ ہمارے سیاسی لیڈرز کے بیانات میں کہیں بھی پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کےلئے کوئی پروگرام نہیں ملے گا بلکہ ایک دوسرے پر الزام تراشی ہی ان کی سیاست ہے۔ دوسری طرف عوام ہر گزرتے دن کے ساتھ بدتر سے بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔