نکاسی¿ آب کے سنگین مسائل کا فوری حل 


ڈیرہ غازی خان سو سال گزر جانے کے بعد ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جس کا غالباً کسی کو ادراک تک نہیں۔ ایک سروے کے مطابق یہاں بدترین سیوریج نظام ہےاور شہر کی کوئی سڑک ایسی نہیں جس میں آئے روز شگاف نہ پڑتے ہوں حالانکہ بے پناہ حکومتی فنڈز کی فراہمی کے باوجود یہاں کی سڑکوں اور سیوریج و صفائی کا نظام درست نہ ہوسکا۔ اس تمام صورتحال کا ذمہ دار یہاں سے منتخب ہونے والے سابق اور موجودہ عوامی نمائندوں کو ٹھہرایا جاتا ہے جن کی کرپشن، نااہلی، عدم دلچسپی اور ناقص حکمت عملی کے باعث شہر کی یہ دگرگوں صورتحال ہے۔ انگزیز دور میں جب ڈیرہ غازی خان کو 1910 میں تعمیر کیا گیا تو شہر میں نکاسی آب کے مو¿ثر نظام کیلئے نالیوں کا سسٹم اور مین روڈز پر بڑے بڑے نالے تعمیر کیے گئے۔ اس سے محلوں کی نالیوں کا پانی مین روڈز کے نالوں میں بہہ جاتا۔گزشتہ دو تین دہائیوں سے نالے اور نالیوں کے مو¿ثر نظام کو ختم کرتے کرتے سیوریج کے پائپ گلیوں اور سڑکوں پر ڈالنا شروع کیے گئے جس سے پورے کا پورا نظام درہم برہم ہوتا چلا گیا ۔ اب حالت ہے کہ نہ سیوریج کی تکمیل ہوتی ہے نہ نالیوں کے نظام کو کار گر سمجھا جا رہا ہے۔ اس کی ذمہ داری سیاسی نمائندوں پر ضرور ڈالی جا سکتی ہے لیکن اصل مجرمانہ غفلت بیوروکریسی اور مختلف محکموں کے انجینئرز حضرات پر عائد ہوتی ہے جمہوں نے اپنے کمیشن کے چکر میں نہ صرف نااہل ہونے کا ثبوت دیا ۔
 2018 ءکے عام انتخابات کے بعد پنجاب کی وزارت اعلی ڈیرہ غازی خان کو دے دی گئی اور یوں وسیب کے سپوت سردار عثمان خان بزدار وزیر اعلی پنجاب بن گئے انہوں نے عالاقائی تعمیر و ترقی کیلئے بڑے بڑے میگا پراجیکٹ کا آغاز کیا اربوں روپے کی گرانٹس دی گئیں لیکن اصل مسائل کا حل تلاش نہ کیا گیا ۔اگر اس شہر کے سیوریج منصوبے کا ازسرِ نو سروے کرانے کے بعد کسی بڑی کمپنی کے ذریعے کام کرایا جاتا تو لامحالہ اس منصوبے سے ڈیرہ غازی خان شہر کے عوام کو ضرور سکھ کا سانس میسر آتا مگر افسوس کہ اربوں کھربوں روپے کے فنڈز مٹی میں بہا دئیے گئے مگر نکاسی آب کے سنگین و بدترین مسائل کو حل نہ کیا گیا ۔اس سے قبل بھی یہاں سے صدر مملکت، وزیر اعظم، وزیر اعلی، گورنر اور وفاقی وصوبائی وزراء رہے مگرکسی نے بھی اس مسئلے کے حل پر توجہ نہ دی ۔ البتہ سابق گورنر پنجاب سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اور انکے فرزند سابق وزیر اعلی پنجاب سردار دوست محمد خان کھوسہ نے اپنے دور میں انفراسٹرکچر کے مسائل کے ساتھ ساتھ تعیلم، صحت، اریگشین کے شعبہ جات میں مثالی اقدامات کیے اور آبادی کے اعتبار سے سیوریج لائنوں کو بچھانے کا کام بھی کیا لیکن اس کے بعد 20 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد منتخب ہونے والے اراکین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ بڑھتے ہوئے آبادی کے مسائل کو مدنظر رکھ کر سیوریج کےلئے ازسر کام کرتے مگر ایسا نہ ہوا ۔ عوام کے یہ نمائندے آتے اور جاتے رہے اور پرانے طرز زندگی کو تباہ کرتے رہے۔ آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم کس قدر بدقسمت لوگ ہیں کہ جن کے نمائندوں کے پاس بڑے سے بڑا اقتدار ہونے کے باوجود شہر کی سیوریج بہتر نہ ہوسکی وہ اجتماعی سطح پر علاقے کی کیا محرومیاں دور کریں گے اور ویسے بھی موجودہ عہد کے نمائندوں سے تو اس لئے بھی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ عوام موجودہ تباہی کے ذمہ داران کو پہچانیں اور انکا محاسبہ کرنے کیلئے تیار ہوں جنہوں نے صحت و تعلیم، انفراسٹرکچر، پینے کے صاف پانی کی فراہمی صفائی و ستھرائی اور نکاسی آب جیسے اہم اور بنیادی مسائل ہی حل نہ کئے ان سے میگا ترقی و خوشحالی ملے یہ ممکن ہی نہیں۔

ای پیپر دی نیشن