’’لانگ مارچ کال‘‘ کاخطرہ مول نہیں لینا چاہیے 


تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حسب عادت ایکبار پھر لانگ مارچ کا زہن گو کہ بنا تو لیا ہے مگر قریباً چار ماہ پہلے 25مئی کو اُن کے لانگ مارچ کا جو حشر ہوا اور جو خفت اس لانگ مارچ کی ناکامی کے باعث انہیں اُٹھانا پڑی اسے زہن میں رکھتے ہوئے ہمیں تو نہیں لگتا کہ وہ اس بار لانگ مارچ کی کال دینے کا خطرہ مول لیںگے ، لانگ مارچ کرنا تو دُدور کی بات ۔لیکن چونکہ موجودہ ملکی سیاست میں اگلے روز کیا ہو جائے اس کا پتہ کسی کو نہیں ہوتا اس لئے لانگ مارچ شائد وہ کر بھی لیں اپنی مزید سیاسی سبکی کروانے کے لیے ہی نہیں اپنے کارکنوں کو بھی ایکبار پھر رُلانے کیلئے بھی کیونکہ سننے میں آیا ہے کہ اس بار حکیم ثناء اللہ نے زمینی آنسو گیس کے شیلوں کے ساتھ ساتھ فضاء سے آنسو گیس کی شیلنگ کے بھی بھر پور طریقے سے انتظامات کرتے ہوئے’’ ڈرون آنسو گیس شیلز ‘‘کا بندوبست بھی کر کہ رکھ لیا ہے تا کہ زمین کے ساتھ ساتھ فضاء سے بھی خان سمیت ان کی طر ف سے اسلام آبا مدعو کئے گئے تمام بن بلائے ناپسندیدہ مہمانوں کی خوب خاطر مدارت کی جا سکے ۔
    پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی سیاست پر گہری نظر ڈالی جائے تو اس میںتو وہ بہت برُی طرح سے ناکام نظر آرہے ہیں مگر جب اِن کی مقبولیت کو دیکھا جائے تو اس میں خان صاحب کافی کامیاب دکھائی د یتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ اِن کی کرکٹ کی سابقہ زندگی ہے جس میں انہوں نے ملکی ہی نہیں غیر ملکی سطح پر بھی کافی شہرت شہرت پائی اور کامیابیاں سمیٹیں ۔پیسے کی بھی کوئی کمی نہیں رہی ان کی زندگی میں بلکہ پیسہ اِکھٹا کرنا وہ اپنے بائیں ہاتھ کی کمال سمجھتے ہیں اور یہ حقیقت ہے بھی کہ جب بھی وہ ہسپتالوں ،یونیورسٹیوں کے قیام کیلئے چندہ مہم پر نکلے کافی کامیاب رہے ،لوگوں نے جھولیاں بھر بھر کر انہیں لاکھوں کر وڑوں دے دیئے ۔یہ اُن کا کرکٹ کا زمانہ تھا مگر جب سیاست میں آئے تو بیس سال تک رگڑے کھاتے رہے اور اُن کی جماعت پاکستان تحریک انصاف ایک سیٹ بھی نہیں نکال سکی اور شیخ رشید جیسے سیاستدان بھی اُن کامذاق اڑاتے اور یہ کہتے کہ یا اللہ مجھے عمران خان جیسا سیاستدان نہ بنانا ،اس کے جواب میں خان صاحب کہتے کہ شیخ رشید کو تو میں اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوںمگر جب وقت نے پانسہ پلٹا تو سب نے کیا دُنیا نے دیکھا کہ دونوں باہم شیر و شکر ہوئے بلکہ شیر و چکر بھی ہوئے اور ایسے ہوئے کہ سب کو چکرا کر رکھ بھی دیا ۔خیر مختصراً یہ کہ حالات آگے بڑھتے رہے اور اُن کی سیاست اچھی برُی جیسے بھی تھی چلتی رہی مگر خان صاحب نے ناکامیوں کے باوجود حوصلہ ہارا نہ ہمت ۔لک (قسمت ) نے ساتھ دیا اور سیاسی بل بوتے پر بے شک نہ سہی مگر جا بیٹھے وزارت عظمیٰ کے جلیل القدر منصب پر،وہ بھی دُنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت پاکستان کی کے ،اب یہ ہم ،آپ اور سب ہی نہیں وہ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ کن کندھوں کے زریعے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے یا  بنا دیئے گئے ۔ خیر چھوڑئے آگے چلتے ہیں،اب آگے یہ کہ جب ’’کندھوں ‘‘ نے اِس بے فائدہ نا اھل و نا لائق بوجھ کو ملکی معیشت سمیت پورے ملک کے سیاسی و انتظامی نظام کا ستیاناس کرتے دیکھا تو اس بوجھ کو ’’کندھوں ‘‘ سے بالاآخر اُتار پھینکا تو یہ اپنی 2014کی احتجاجی ریلیوں ،مظاہروں اور دھرنوں والی سابقہ پوزیشن پر آگیا اور پھر سے ملک کو انتشار و بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا اور مجھے کیوں نکالا کی رٹ لگاتے ہوئے پھر سے لانگ مارچوں دھرنوں کا سلسلہ شروع کردیا جو رُکا نہیں بلکہ اب بھی وہ لانگ مارچ کی کال دینے کی تڑیاں لگا تورہے ہیں مگر دے نہیں پائے ابھی تک۔یقینا انہیں 25مئی والی اپنی اور اپنے کارکنوں کی وہ ابتر حالت یاد ہے جس کا انہیں گمان بھی نہیں تھا کہ اسطرح وہ مایوس و ناکام اسلام آباد سے واپس لوٹا دیئے جائیں گے ۔دراصل بات یہ ہے کہ خان صاحب ابھی تک وزارت عظمیٰ کے خول سے باہر نہیں نکلے نہ ہی وہ نکلنا چاہتے ہیں بلکہ چاہتے وہ یہ ہیں کہ وہ جیسے بھی ہو کسی بھی طرح سے دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں ۔وہ ابھی تک خود کو لاڈلہ تصور کر رہے ہیں مگر یقینا انہیں اندازہ نہیں کہ وہ اب لاڈلے رہے ہیں نہ ہی وزیر اعظم وسر ا اگر وہ ابھی تک اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ وہ ممکنہ الیکشنزدو تہائی اکثریت سے با آسانی جیت کر پھر سے وزیر اعظم بن جائیں گے تو یہ اُن کی خوش فہمی تو ہو سکتی ہے حقیقت نہیں۔ خان صاحب کویہ حقیقت خاص طور پر زہن نشین رکھنی چاہیے کہ وہ 2018کے انتخابی عمل کے نتیجے میں نہیں بلکہ ’’لوٹوں ‘‘ کے زریعے وزیر اعظم بنے تھے ،انہیں وزیر اعظم لوٹوں نے بنوایا تھا تو اس سمت میں بھی دیکھاجائے تو اب نہ وہ لوٹے انہیں دوبار ہ میسر آسکتے ہیں نہ ہی و ہ کندھے اور انگلیاں جن پر سوار ہو کر اور پکڑ کر وہ اقتدار کی راہداریوں میں چلتے رہے تھے ،اسی لئے تو ہم کہہ رہے ہیں کہ ’’اب لانگ مارچ کی کال نہ دے ا ے خان ‘‘ کیونکہ حکیم رانا ثنا ء اللہ بمعہ لاٹھیوں اور آنسو گیس کی شیلوں کے تیار بیٹھے ہیں، اسی لئے ہم یہاںانہیں ایکبار پھر مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر وہ ملک اور قوم سے مخلص ہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قبل از وقت کی بجائے 2023کے عام انتخابات کا انتظار کریں، اس سے پہلے انتخابات ہونے کے امکانات ہیں نہ ہی کوئی اور زریعہ ممکن ہو سکتا ہے اِن کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا ،اور پھر دیکھا جائے تو کم از کم ہماری سمجھ میں تو نہیں آرہا ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں کیوں آنا چاہتے ہیں ،دوبارہ اقتدار میں تو انہیں اُسی وقت آنا چاہیے تھا جب پہلے اپنے دور میں انہوں نے کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کی ہوتی اور ملک کو معاشی طور پر مضبوط اور قوم کو خوشحال’’ نیا پاکستان‘‘ دیا ہوتا مگر ہوا تو اس کے برعکس ، تو کوئی اب کیونکر انہیں دوبارہ سے اپنے سر پر سوار کر کہ ملک کا ستیاناس کروانا چاہیے گا،یقینا اس کا جواب نفی میںہی ہوگا۔
                           

ای پیپر دی نیشن