دستور پاکستان کی رو سے نگران حکومت کی بنیادی ذمہ داری ملک میں آئین میں مقررہ مدت کے اندر انتخابات کرانا اور اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپ کر رخصت ہو جانا ہے مگر پنجاب اور صوبہ خیبر میں نگرانوں کو اقتدار سنبھالے نو ماہ جب کہ وفاق اور سندھ بلوچستان میں ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ابھی تک کسی کو کچھ خبر نہیں کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کب ہوں گے، نگران حکمران سب کچھ کر رہے ہیں مگر انتخابات کی حتمی تاریخ سے متعلق بات کرنے پر تیار نہیں۔ ہاں البتہ آئے روز عوام پر مہنگائی کے پٹرول، بجلی، گیس اور دیگر طرح طرح کے بم گرا کر لوگوں کو بے حال اور بد حال ضرور کیا جا رہا ہے.... نگران حکومت نے اپنے اقتدار کے صرف ایک ماہ میں پٹرول کی قیمتوں میں 58 روپے اور ڈیزل کی قیمتوں میں 56 روپے اضافہ کر دیا ہے جو ملکی تاریخ میں ایک ریکارڈ اضافہ ہے۔ حکومت بجلی کے نرخوں میں بھی مسلسل اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے، جب کہ بجلی کی ناقابل برداشت قیمت کے برابر نہ جانے کون کون سے ٹیکس بھی ان بلوں میں شامل کر دیئے جاتے ہیں۔ حکومت کے ان اقدامات کا اثر دیگر تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور کرایوں وغیرہ پر بھی براہ راست ہوتا ہے اور افراط زر میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے، روز افزوں گرانی کے سبب عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے، مہنگائی نے لوگوں کا بھرکس نکال دیا ہے، ماہرین معاشیات کے مطابق اس وقت ملک کی آبادی کا چالیس فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں تاہم نگران حکومت کے حالیہ اقدامات کے نتیجے میں پچھتر لاکھ سے زائد مزید لوگ خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے جب کہ کاروباری اور تعمیراتی سرگرمیوں میں بھی کمی آئے گی جس کا لازمی نتیجہ بے کاری اور بے روز گاری کی صورت میں سامنے آئے گا جب کہ لوگ پہلے ہی بھاری بلوں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اندھا دھند اضافے کے سبب بلبلا رہے اور سراپا احتجاج ہیں مگر عجیب صورت حال ہے کہ عوام کی نمائندہ ہونے کی دعویدار تمام سیاسی جماعتیں اس صورت حال پر خاموش تماشائی اور ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم، کی تصویر بنی ہوئی ہیں، انہیں باہم ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے ذریعے سیاست چمکانے اور عوام کو بے وقوف بنانے سے فرصت نہیں.... شاید اس کی اہم وجوہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ موجودہ مہنگائی اور بے روز گاری کی ذمہ دار یہ سب جماعتیں خود ہی ہیں، جو ایک ماہ پہلے تک مل جل کر ملک پر حکمرانی کرتی رہی ہیں اور قومی خزانے کی بہتی گنگا میں سے ان سب نے خوب ہاتھ دھوئے ہیں، اس کے علاوہ عالمی ساہو کار آئی ایم ایف سے جس معاہدہ کے سبب موجودہ نگران حکومت آئے روز بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پے در پے اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے، یہ معاہدہ خود پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی پر مشتمل چودہ جماعتی اتحاد نے کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ تمام جماعتیں عوام کے مسائل اور مصائب پر توجہ دینے کی بجائے آئیں بائیں شائیں میں مصروف ہیں کہ یہ مسائل، پریشانیاں، مشکلات اور مصائب خود ان جماعتوں کی عطا کردہ ہیں جو کل بھی عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی پر متفق تھیں اور آج بھی اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر مصر ہیں۔ یوں بھی گزشتہ نصف صدی سے یہی سیاستدان مختلف روپ دھار کر اقتدار کی باریاں لیتے رہے ہیں۔ ملک کی اشرافیہ بھی ہمیشہ سے ان ہی کی سرپرستی کرتی چلی آ رہی ہے کیونکہ یہ سیاست دان اس اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتے چلے آئے ہیں.... اشرافیہ کے مختلف طبقات بھاری تنخواہوں کے علاوہ اربوں روپے ماہانہ کی مراعات اور سہولتیں مفت رہائش، مفت سفر، مفت گاڑیوں، مفت پٹرول، مفت گیس، مفت بجلی اور دیگر نہ جانے کن کن مراعات کی صورت میں وصول کرتے ہیں اور گرانی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ان مراعات پر قومی خزانے سے اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی نہیں ملازمت کے دوران کرپشن کی کھلی چھوٹ بھی انہیں حاصل رہتی ہے اور ملازمت سے سبکدوشی کے بعد پنشن اور دیگر مراعات کے علاوہ مختلف اعلیٰ حکومتی عہدوں پر تعیناتی کے مواقع بھی انہیں ہی دستیاب ہوتے ہیں۔ طبقہ اشرافیہ اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے ان سیاستدانوں کا یہ گٹھ جوڑ ہی ملک میں غربت مہنگائی، بے روز گاری اور دیگر مسائل کا ذمہ دار ہے، اس سبب مفاد پرست سیاسی جماعتیں موجودہ ناگفتہ بہ صورت حال پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں صرف جماعت اسلامی اس مشکل وقت میں عوام کے لیے صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے جس کے امیر سراج الحق کی اپیل پر پہلے دو ستمبر کو ملک گیر تاریخی ہڑتال بجلی کے بلوں میں ناروا اضافہ کے خلاف کی گئی اور اب جماعت اسلامی ہی پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کے نرخوں میں بے محابا اضافہ کے خلاف تمام صوبائی دارالحکومتوں میں حکمرانی کی علامت گورنر ہاﺅسوں کے سامنے احتجاجی دھرنے دے رہی ہے جن میں عوام بھر پور شرکت کر رہے ہیں۔ مگر اس زبردست عوامی احتجاج کے باوجود حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور وہ اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی پر آمادہ ہیں، نہ بالائی طبقات کی مراعات واپس لینے کی بات سننے کو تیار ہیں۔ حکومت آئے روز عوام پر مہنگائی کے بوجھ میں اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے۔ حکومت کا یہ طرز عمل ”مرے کو مارے شاہ مدار‘ کے مصداق ہے۔ عوام کے مسائل اور مشکلات سے لاتعلقی اور عوامی احتجاج کو قطعی کوئی اہمیت نہ دینے کی نادر مثال گزشتہ دنوں محترمہ نگران وزیر خزانہ کے اس بیان کی صورت سامنے آئی کہ ہم اس لیے حکمران نہیں بنائے گئے کہ بجلی بلوں کے متاثرین کو ریلیف دیں بلکہ ہمارا کام آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدہ پر عمل درآمد کروانا ہے۔ نگران وزیر خزانہ کا یہ بیان سو فیصد حقائق کا عکاس ہے مگر انہیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ان کی حکومت کا یہ رویہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہا ہے اور مہنگائی اور مسائل کے ستائے ہوئے غریب لوگ جو آج بے بسی سے خودکشیاں کر رہے ہیں وہ جب اٹھ کھڑے ہوئے تو حکمرانوں اور ان کی پروردہ اشرافیہ کو کہیں پناہ نہیں ملے گی.
حکمران اشرافیہ طبقات کا سفاکانہ طرز عمل
Sep 22, 2023