جنرل اسمبلی اجلاس میں ایرانی صدر کی تقریر میں خلل ڈالنے پر اسرائیلی سفیر کو باہر نکال دیا گیا
اپنا نامہ اعمال دیکھ کر اپنے بارے میں سچ س±ن کر۔ بھلا کس سے برداشت ہوتا ہے۔ جب ایک غاصب قاتل اور ظالم کے چہرے کو نقاب کیا جائے تو یہی ہوتا ہے۔ وہ پنجے جھاڑتا کف اگلتا کاٹ کھانے کو دوڑ پڑتا ہے۔ صدیوں سے ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔ جھوٹوں میں بھلا سچ سننے کا حوصلہ کہاں ہوتا ہے۔ یہی کچھ گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں ہوا جب ایرانی صدر نے عالمی برادری کے سامنے غاصب اسرائیلی ریاست کے کرتوت بیان کرنا شروع کئے تو اس کا مندوب بھڑک اٹھا اور غل مچانے لگا۔ اس کی اس طرح ایرانی صدر کی تقریر میں مداخلت پر اقوام متحدہ کے سکیورٹی سٹاف نے اسرائیلی مندوب کو حقیقت میں یک بینی و دو گوش پکڑ کر ہال سے باہر نکال دیا گیا بقول غالب
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے نکلے
اقوام متحدہ کے اجلاس سے اس طرح کسی مندوب کا دھکے کھا کر یا زبردستی پکڑ کر نکالے جانے کا قصہ تادیر یاد رہے گا۔
ایک تو آپ ظلم کریں ستم کی نئی نئی راہیں ایجاد کریں۔ دوسرے کی سرزمین پر قابض ہوں۔ بے گناہوں کے لہو سے آپ کے ہاتھ رنگے ہوں۔ اس پر بھی اگر کوئی آپ کے خلاف بولے آپ کے مظالم کو بے نقاب کرے تو آپ سیخ پا ہو کر اس کی آواز دبانے کی کوشش کریں تو ایسا اس دور میں ممکن نہیں۔ ہاں البتہ آپ اپنے سرپرستوں کے بل بوتے پر گرمی بازار پیدا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ کرتے رہیں مگر یاد رکھیں جو اب میں اسی طرح ہر جگہ دھکے ہی پڑے گے۔ محفل سے نکالے ہی جائیں گے۔ ظالموں غاصبوں کے حصے میں یہ رسوائی ازل سے لکھی جا چکی ہے۔
٭٭٭٭٭
اہم پیغام لے کر شہباز شریف اور مریم لندن پہنچ گئے
میاں شہباز شریف کی پھرتیوں کے پہلے ہی سب معترف ہیں۔ ان کی شہباز سپیڈ کی طرح آنیاں جانیاں بھی سب میں مقبول ہیں۔ کہتے ہیں ناں سواری لبھے نہ لبھے سپیڈ 190 ہی رہنی چاہیے۔ اسی لیے لگتا ہے ان کے پاﺅں میں سفر کے چکر لپٹے ہوئے ہیں۔ ایک قدم لاہور میں ہوتا ہے تو دوسرا لندن۔ یہی دیکھ لیں میاں جی ابھی ایک دو روز ہوئے لندن سے واپس وطن آئے تھے ابھی تو سامان سفر بھی انہوں نے پوری طرح کھولا نہیں تھا کہ بقول منیر نیازی
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
والا معاملہ درپیش تھا۔ اگر شعر میں دریا کی جگہ سفر پڑھا جائے تو زیادہ مزہ آسکتا ہے۔ اب خبر یہ ہے کہ شہباز شریف ایک اہم پیغام لے کر لندن میاں نواز شریف سے ملنے جا رہے ہیں۔ یہ پیغام کیا ہے۔ کس کی طرف سے ہے۔ یہ تفصیلات ابھی تک صیغہ راز میں ہیں۔ مخالفین کہہ رہے ہیں کہ اب شاید میاں جی اس پیغام کے بعد واپسی کی تاریخ آگے بڑھا دیں گے۔ مگر حامی کہتے ہیں یہ پیغام میاں جی کے لیے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گا۔ مگر بڑے میاں جی کو یاد رکھنا ہو گا ”سفر میں دھوپ تو ہو گی، جو چل سکو تو چلو“ اب اگر وہ نرم گرم یا سخت گرم حالات کا موسموں کی شدت کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں تو ضرور آئیں جم جم آئیں۔ رہی بات شہباز شریف کی تو وہ اور مریم نواز شریف اپنے قائد سے تنہا ملاقات کریں گے اور اہم موضوعات پر بات ہو گی۔ کوئی اور اس ملاقات کا شاہد نہیں ہو گا دیکھتے ہیں ان تین بڑوں کی کہہ لیں گھر والوں کی یہ بیٹھک کیا رنگ لاتی ہے۔ تفصیلات کا اعلان ہونے تک معاملہ ففٹی ففٹی لگتا ہے۔
٭٭٭٭٭
پاکستان میں 3 کروڑ 22 لاکھ افراد ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں
جب ہر طرح کے زمینی حقائق ، موسمی حالات اور معاشی و گھریلو مسائل مل کر ایک بہترین و سازگار ماحول پیدا کر کے بلند فشار خون کی خوب آبیاری کرتے ہوں تو یہ مرض نہایت تیزی سے پھلتا پھولتا ہے اور پھیلتا ہے۔ بلڈ پریشر دراصل ذہنی تناﺅ اور پریشانیوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جب ایک اچھا بھلا شخص اپنے اردگرد گھر سے لے کر محلے اور شہر کے علاوہ ملک کے ابتر حالات دیکھتا ہے تو خودبخود ٹینشن میں آ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کا بلڈ پریشر بڑھنے لگتا ہے یا یکدم گرنے لگتا ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ نہایت خطرناک ہوتا ہے۔ گلزار نے برسوں پہلے لکھا تھا
دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں
یاد اتنا بھی کوئی نہ آئے۔۔۔
اس وقت دل کے معاملات و حالت اور بیماریوں کے حوالے سے میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی جتنی اب ہے مگر بلڈ پریشر اس وقت بھی ایک مرض تھا۔ یہ دل و دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ دل کی رگیں اور دماغ کی نسیں پھٹ جاتی ہیں۔ انسان فالج زدہ ہو کر بستر پر پڑتا ہے تا پھر موت کی چادر اوڑھ کر لحد میں جا سوتا ہے۔ موجودہ حالات میں جب عام آدمی روٹی، روزگار، صحت، تعلیم، انصاف کے حوالے سے طرح طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ جیب اور کچن خالی پڑے ہوں۔ بھوک اور ننگ گھر میں ناچ رہے ہوں تو زندگی بوجھ بن جاتی ہے ایسے بے درد حالات میں یہ 3 کروڑ 22 لاکھ افراد کی تعداد بہت کم لگتی ہے۔ 90 فیصد گھرانوں میں معاشی حالات نے 3 نہیں سچ کہیں تو 22 کروڑ افراد کو فشار خون (بلڈ پریشر) کا مریض بنایا ہوا ہے۔ لوگوں کا چین و سکون چھن چکا ہے۔ ضروریات زندگی ان کے پہنچ سے دور ہو چکے ہیں۔ کوئی تو اس کا مداوا کرے۔ لوگوں کو اس کرب مسلسل سے نجات دلائے۔ ورنہ وہی غالب والی بات ہو گی
”مرنے سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں“
٭٭٭٭٭
اسلام آباد میں چوروں کو پکڑنے کے لیے لگائے کیمرے چوری ہو گئے
اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے ”وہ شاخ ہی نہ رہی جس پر آشیانہ تھا“ یا پھر ”مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے۔“ جی ہاں جنہوں نے یہ کیمرے لگائے تھے وہ دو ہفتے تک اس بات سے لاعلم تھے کہ اب یہ کیمرے موجود نہیں۔ چور انہیں اطمینان سے اڑا لے گئے ہیں۔ یہ ہے سیف سٹی پروگرام کا اصل روپ کہ کنٹرول روم والوں کو بھی پتہ نہ چلا کہ یہ کیمرے بند کیوں ہیں چل کیوں نہیں رہے۔ وہ ہر روز سب اچھا کی رپورٹ دے کر اطمینان سے کرسیاں توڑتے رہے۔ مانیٹرنگ کاکام ہی یہی ہے ہر کیمرے کی موومنٹ پر نظر رکھے کہ وہاں سے کیا نظر آ رہا ہے۔ لگتا ہے نظر رکھنے والوں کا دھیان کہیں اور ہوتا ہے اور وہ اس بور کام میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ ملک کے بڑے شہروں میں ان کیمروں کو لگا کر شہریوں کے تحفظ کا بندوبست اور سیف سٹی کا تصور اجاگر کیا گیا تھا۔ اب معلوم ہوا یہ سب ایک خواب تھا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ چوروں کو پکڑنے والے کیمرے ہی چوری ہو گئے کس نے کئے کیسے کئے یہ معمہ اب جلد حل کیا جائے۔ پولیس کے ناک تلے یہ واردات جس نے بھی کی وہ جگرے والا ہی ہو گا۔ ویسے ہے نہ یہ کمال کی بات۔ آج تک یہی شکایات عام تھی کہ یہ کیمرے خراب ہیں صبح کام نہیں کرتے۔ اسلام آباد میں تو خاص طور پر اچھے کیمرے نصب کئے گئے ہوں گے کہ وہ شہر اقتدار ہے۔ جہاں قدم قدم پر اشرافیہ ڈیرے جمائے ہوئے ہیں ہر روز کوئی نہ کوئی صاحب سلامت وہاں کی سڑکوں پر گھومتا نظر آتا ہے۔ اب اس خبر کے بعد کہیں اور مچی ہو نہ مچی ہو پولیس میں ضرور تھرتھلی مچی ہو گی کہ یہ کیا ہو گیا۔ ویسے اس پر ہی لگتا ہے ”آنکھ سے کاجل چوری کرنے والا محاورہ ایجاد ہوا ہو گا کہ کس صفائی سے یہ کام کھلی آنکھوں کے سامنے ہو گیا اور پتہ بھی نہ چلا۔
٭٭٭٭٭