مسلم لیگ (نون) کے صدر جناب شہباز شریف صاحب لندن سے وطن لوٹ کر ابھی کمر بھی سیدھی نہیں کر پائے ہوں گے کہ انہیں ایک بار پھر ”ہنگامی“ دِکھتے حالات میں بدھ کی سہ پہر سے برطانیہ پرواز کے لئے فلائٹ اور نشست ڈھونڈنے کی مشقت سے گزرنا پڑا۔ ہوسکتا ہے کہ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں تو وہ قطر ایئرلائن کی پرواز سے لندن پہنچ چکے ہوں گے۔لاہور پہنچنے کے چند ہی گھنٹوں بعد شہباز صاحب کو لندن کیوں واپس جانا پڑا؟ اس سوال کا تسلی بخش جواب آپ کو مسلم لیگ (نون) کا کوئی ایک رہ نما بھی دینے کے قابل نہیں۔ ”صلاح ومشاورت“ کا ”عذر“ فقط اسی صورت قابل توجہ قرار پاتا اگر وہ لندن سے واپس آنے کے بعد لاہور میں کم از کم ایک ہفتہ گزار چکے ہوتے۔اس صورت میں یہ جواز گھڑنے کی ٹھوس وجوہات میسر ہوتیں کہ اپنی جماعت کے سرکردہ اراکین سے تفصیلی مشاورت کے بعد مسلم لیگ (نون) کے صدر اپنے قائد اور بڑے بھائی کو ان ارادوں اور جذبات سے آگاہ کرنے لندن واپس گئے ہیں۔
نواز شریف کی 21اکتوبر2023ءکے دن وطن واپسی کا اعلان ہوچکا ہے۔ چار برس کی طویل مدت کے بعد وہ یقینا ایک کڑے وقت میں وطن لوٹیں گے۔ ان کی وطن آمد کے فوری بعد پہلا سوال تو یہ ا±ٹھے گا کہ انہیں ایئرپورٹ ا±ترتے ہی گرفتار کیا جائے یا نہیں۔ بہرحال وفاقی کابینہ سے ”اجازت“ کے بعد وہ لاہورہائی کورٹ سے یہ و عدہ کرتے ہوئے لندن گئے تھے کہ اپنا علاج کروانے کے بعد وہ پاکستان لوٹ کر اپنے خلاف ہوئے مقدمات کا سامنا کریں گے۔ یاد یہ بھی رکھنا ہوگا کہ انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا اور وہاں سے بعدازاں لندن۔یوں تکنیکی اعتبار سے وہ ”قید“ سے نکال کر باہر بھیجے گئے تھے اور واپسی کے بعد ان کا ”قیدی“ والا مقام بحال کرنا ہوگا۔ قانون کی مبادیات سے قطعاََ لاعلم ہوتے ہوئے مجھ جیسا قلم گھسیٹ اس امکان کو ذہن میں لاسکتا ہے کہ لاہور آمد سے قبل وہ عدالتوں سے ”حفاظتی ضمانت“ کے لئے رجوع کریں گے۔یہ سوچنے میں تاہم کوئی حرج نہیں کہ جس عدالت سے وہ رجوع کریں وہ یہ فیصلہ بھی کرسکتی ہے کہ لندن سے لوٹ کر میاں صاحب سیدھا جیل جائیں اور اس کے بعد اپنی ضمانت کے لئے درخواست دائر کریں۔
جو سوال میں نے اٹھایا ہے وہ آج کے موضوع سے توجہ ہٹادے گا۔فی الوقت انگریزی محاورے والا ”ون اینڈ اونلی “ سوال یہ بنتا ہے کہ شہباز صاحب لندن سے لوٹتے ہی وطن عزیز میں چند گھنٹے گزارنے کے بعد لندن واپسی کا ٹکٹ کٹوانے کو کیوں مجبور ہوئے۔ شہباز صاحب اپنے چہیتے ترین صحافی کوبھی اس سوال کا جواب فراہم نہیں کریں گے۔میں بدنصیب تو ان کی نگا ہ میں صحافی ہی شمار نہیں ہوتا اورسیاسی قیادتیں جب واجب سوالات کا جواب دینے سے کنی کترائیں تو مجھ جیسے دو ٹکے کے رپورٹر قیاس آرائی کو مجبور ہوجاتے ہیں۔
قیاس آرائی کے لئے بھی لیکن منطقی بنیا دوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ وگرنہ قیاس آرائی افواہ سازی کی حدوں میں داخل ہوکر بے پرکی کے اڑانے والا بچگانہ فعل شمار ہوگی۔یاوہ گوئی سے پرہیز کرتے ہوئے ذہن پر عقل کی لگام ڈال کر سوچیں تو گمان ہوتا ہے کہ شہباز شریف صاحب جب وطن لوٹے تو ہمارے ہاں کی وہ قوتیں جنہیں ”مقتدر“ پکارا جاتا ہے ملکی سیاست کے مستقبل کے بارے میں کوئی ”گیم پلان “ تیار کرچکی تھیں۔ شہباز صاحب کو اس کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ ان میں سے چند جزئیات ایسی بھی ہوسکتی ہیں جن کا براہ راست تعلق نواز شریف کی ذات یا اندازِ سیاست سے ہو۔ شاید ان کے بارے میں شہباز صاحب سے ملنے والے مضطرب ہوئے چند وضاحتوں کے طالب ہوں۔ شہباز صاحب نے خود کو مطلوبہ وضاحتوں کے قابل تصور نہ کیا اور ”کلامِ شاعر بزبانِ شاعر“کی چاہ میں لندن واپس لوٹ گئے۔
مذکورہ بالا پیرا میں نے یقینا دلی کے ایک محاورے کے مطابق ”اگرچہ کی روٹی“ کو ”مگرچہ کی دال“ کے ساتھ ملاکر ”چنانچہ کی چٹنی“ ڈالتے ہوئے لکھا ہے۔اس کے سوا مگر چارہ ہی نہیں تھا۔ وہ ”ذرائع“ جن کی بتائی بات پر عموماََ مجھے اندھا اعتماد رہا ہے یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ شہبازصاحب کے لندن لوٹنے کے بعد لاہور کے نواح میں واقع ایک شہر میں ایک ”اہم ملاقات“ ہوئی ہے۔مبینہ ملاقات کے دوران ہوئی گفتگو نے شہباز صاحب کو فی الفور لندن جانے کو مجبور کیا۔جس ملاقات کا ذکر ہوا اس کی تصدیق یا تردید میری بساط سے باہر ہے۔معاملات کو سادہ رکھنے کے لئے کم از کم میں یہ تسلیم کرنے کو دل وجان سے آمادہ ہوں کہ جس ملاقات کا دعویٰ ہورہا ہے وہ سرے سے ہوئی ہی نہیں۔
وسیع تر تناظر میں لیکن میری رائے بے وقعت شمار ہوگی۔ دورِ حاضر میں موبائل فون کا مالک ہر شخص ”صحافی“ ہونے کا دعوے دار ہے۔وہ دو کودو سے ملاتے ہوئے اپنی رائے بنالیتا ہے۔ریگولر اور سوشل میڈیا پر غور کریں تو وہاں پر حاوی ذہن سازوں کی اکثریت آپ کو واضح طورپر اس رائے کا اظہار کرتی سنائی دے گی کہ نواز شریف صاحب نے گزرے پیر کے دن لاہور میں اپنی جماعت کے رہ نماﺅں کے اکٹھ سے جو خطاب کیا ہے اس کے چند نکات ”مقتدر حلقوں“ کو پسند نہیں آئے ہیں۔ہمارے عوام کی اکثریت نواز شریف کے مذکورہ خطاب سے بے خبر رہی کیونکہ پیر کے دن وہ سات گھنٹوں تک ٹی وی سکرینوں پر نگاہیں جمائے سپریم کورٹ کی فل کورٹ کی کارروائی دیکھ رہے تھے۔
پیر کا دن گزرجانے کے بعد منگل کی صبح سے یہ خبر پھیلنا شروع ہوئی کہ اپنی جماعت کے سرکردہ رہ نماﺅں اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے چار اہم افراد کے نام لئے ہیں۔ریاست کے دو طاقت ور ستونوں کے ماضی میں نما ئندہ رہے ان چاروں افراد کو انہوں نے نہ صرف ان کی حکومت کے خلاف سازشوں کا ذمہ دار ٹھہرایا بلکہ یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت غارت ہوگئی۔
ان کا اصرار تھا کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے ان کی جماعت اپریل 2022ءمیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت کو ہٹانے کو مجبور ہوئی۔ اس کے بعد 16ماہ تک پھیلے دور اقتدار میں شہباز حکومت کو ایسے فیصلے بھی لینا پڑے جنہوں نے مسلم لیگ (نون) کے ووٹ بینک کو اجاڑدیا۔ ”ملک کی خاطر“ اپنا ووٹ بینک گنوانے کے باوجود ان کی جماعت نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ وہ وطن لوٹ کر انتخابی مہم کی قیادت کرتے ہوئے اسے دوبارہ اقتدا ر میں لانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔یہ سب کرتے ہوئے ان کی مگر یہ توقع بھی ہوگی کہ مبینہ طورپر اپنی من مانیوں سے وطن عزیز کو مشکلات کے بھنور میں پھینکنے والے افراد کا بھی ”احتساب“ ہو۔ان کے بارے میں ”مٹی پاﺅ“ والا درگزرنہ برتا جائے۔ پیر کے دن ہوئے خطاب کے ان حصوں نے یقینا ریاست کے چند فیصلہ ساز حلقوں کو چونکا دیا ہوگا۔ خدشات لہٰذا وضاحتوں کے طلب گار ہیں۔