متحدہ عرب امارات نے رواں ہفتے 10 اکتوبر سے سمندر کے راستے پاکستان سے 'ٹھنڈا تازہ گوشت' درآمد کرنے پر پابندی عاید کرنے کا اعلان کیا ہے۔پاکستان سے گوشت کے ایک معروف درآمد کنندہ کا کہنا ہے کہ پاکستان سے ایک نامعلوم کمپنی نے گوشت کی 'غیر معیاری' مصنوعات برآمد کی تھیں جس کی وجہ سے امارات نے یہ پابندی عاید کی ہے۔پاکستان متحدہ عرب امارات کو سالانہ قریباً14 کروڑ 40 لاکھ ڈالر مالیت کا گوشت برآمد کرتا ہے۔یواے ای کی وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات کے ایک نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ 10 اکتوبر 2023 سے پاکستان سے متحدہ عرب امارات کو سمندر کے راستے تازہ ٹھنڈا گوشت درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔البتہ ہوائی نقل و حمل کے ذریعے پاکستان سے گوشت کی درآمد پر کوئی پابندی عاید نہیں کی گئی ہے ۔اس شرط کے ساتھ کہ گوشت ویکیوم یا تبدیل شدہ ماحول میں پیک کیا ہو اور ذبیحہ کی تاریخ سے 60 سے 120 دن کی شیلف مدت رکھتا ہو۔کراچی میں قائم گوشت کی درآمد کنندہ آرگینک میٹ کمپنی لمیٹڈ (ٹی او ایم سی ایل) کے سی ای او فیصل حسین کا کہنا ہے کہ "جزوی پابندی" سے پاکستان کے مجموعی برآمدی اعدادوشمار کو نقصان پہنچے گا۔انھوں نے بتایا کہ ’’مجموعی طور پر پاکستان کے لیے [گوشت کا] برآمدی حجم دو تہائی کم ہو جائے گا کیونکہ پاکستان صرف اس چیز کو برآمد کرنے تک محدود رہے گا جو ہوائی راستے سے بھیجی جا سکتی ہے، اور فضائی حدود کی بھی حدود ہیں اور گوشت کی فضائی نقل وحمل ویسے ہی مہنگی ہے۔ نیز پاکستان نے دوسرے ممالک کے مقابلے میں متحدہ عرب امارات میں اپنی جگہ بنائی تھی لیکن اب یہ ملک ہاتھ سے نکل جائے گا‘‘۔ٹی او ایم سی ایل کے ایک اندرونی میمو میں کہا گیا ہے کہ یہ پابندی اس لیے عاید کی گئی ہے کیونکہ ایک اور گوشت برآمد کنندہ نے، جس کا کمپنی نے نام ظاہر نہیں کیا تھا،سمندر کے راستے متحدہ عرب امارات کو غیر معیاری تازہ ٹھنڈا گوشت بھیجا تھا۔
ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی پاکستان (ٹی ڈی اے پی) کے مطابق، پاکستان دنیا میں گوشت پیدا کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ گذشتہ دہائی کے دوران میں یہ تیزی سے بڑھتے ہوئے گوشت برآمد کنندگان میں سے ایک بن گیا ہے اور خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک کو گوشت کی مسابقتی برآمد سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ٹی ڈی اے پی کے مطابق جنوری 2023 میں پاکستان سے گائے کے گوشت کی برآمدات مالیت تین کروڑ 10 لاکھ ڈالررہی تھی اور یہ 2022 کے اسی عرصے کے دوران میں ریکارڈ کیے گئے دوکروڑ 40 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 29 فی صد زیادہ تھیں۔