لاہور (کامرس رپورٹر) نگران وفاقی وزیر تجارت و صنعت گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ لوگوں نے ٹیکس چوری، افغان ٹریڈ اور ڈرگ کے پیسے سے ڈالر خریدے، حکومت نے سختی کی تو ڈالر کی قیمت 350سے کم ہو کر 290روپے پر آ گئی ہے، ایسے لوگوں کے لئے پیغام ہے کہ حکومت ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے والے کسی غیر قانونی اقدام کو برداشت نہیں کرے گی۔ اس لئے ڈالر کے حوالے سے بزنس کمیونٹی کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نگران وفاقی وزیر برائے توانائی محمد علی کے ہمراہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور آپٹما ہاﺅس میں ایک اعلی سطحی اجلاس اور پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور، لاہور چیمبر کے سینئر نائب صدر ظفر محمود چودھری، نائب صدر عدنان خالد بٹ، لیسکو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شاہد حیدر، منیجنگ ڈائریکٹر ایس این جی پی ایل عامر طفیل، لاہور چیمبر کے سابق صدور اور ایگزیکٹو کمیٹی ممبران بھی موجود تھے۔ گوہر اعجاز نے کہا کہ آج ڈالر کا ایکسچینج ریٹ 260 روپے بنتا ہے جس نے ڈالر باہر روکے ہیں وہ منگوا لے، جس نے ڈالر کہیں رکھے ہیں وہ وائٹ کروا لیں۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے سلسلے میں ٹھوس اقدامات اٹھا رہے ہیں اور اس کے تحت وہی سامان آنے دیا جائے گا جس کی ضرورت ہے۔ ڈالر کی بڑھتی قیمت کی ایک بڑی وجہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی ہے جس کی سختی سے نگرانی کی جارہی ہے تاکہ اس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت نہ بڑھے اور سمگلنگ کی روک تھام بھی ہو۔ جس کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا ہے کہ کئی اشیاء افغانستان جانے کی بجائے یہاں پر ہی فروخت کر دی جاتی تھیں۔ لاہور چیمبر کے صدر نے مسائل کی درست نشاندہی کی اور بطور بزنس مین انہیں متعلقہ پلیٹ فارم پر اٹھاتے آرہے ہیں۔ ٹیکسٹائل کو چھوڑ کر ملک کے بقیہ تمام سیکٹرز کی مینوفیکچرنگ پانچ ارب ڈالر جبکہ ایتھوپیا کی دس ارب ڈالر ہے۔ ملک میں ڈالر کی کوئی کمی نہیں، اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو ہمارے پاس 100ملین ڈالر سرپلس تھا۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی محمد علی نے کہا کہ انڈسٹری کو گیس کی قیمتوں کے حوالے سے بہت زیادہ خدشات ہیں اب اس پر کام کر رہے ہیں اور جلد ہی گیس کی قیمتوں کا اعلان کریں گے، کوشش کی ہے کہ غریبوں پر اس کا بوجھ نہ آئے، اگر آیا بھی تو صرف 300سے 400روپے کا فرق پڑے گا، انڈسٹری کے لئے گیس کی قیمتوں کا فرق ختم کیا جائے گا، پنجاب اور خیبر پختوانخواہ کا ٹیرف نہیں بڑھے گا جبکہ سندھ اور بلوچستان کا ٹیرف بڑھے گا۔ انڈسٹری کے لئے گیس سپلائی بر قرار رکھنے کے لئے کام کر رہے ہیں لیکن امسال موسم سرما میں مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان میں ایل این جی کے صرف دو ٹرمینل ہیں۔ ہم نے ایل این جی کے جتنے بھی طویل المدت معاہدے کئے ہیں وہ ناکافی ہیں اور سپاٹ ریٹ اتنے زیادہ ہیں جس پر خریداری کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہونے کی وجہ سے بجلی کی قیمت کم کرنا ممکن نہیں، بجلی چوری کے خلاف مہم جاری ہے اور اب تک 6ارب روپے کی ریکوری کی ہے۔ گیس سیکٹر روزانہ 100کروڑ روپے کا نقصان کر رہا ہے اور سالانہ 3000کروڑ روپے کا نقصان کر رہا ہے۔