وقت کی باگ ڈور جن کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، دماغی خلل کی بنا پر وہ اِن گوشت پوست اور ہڈیوں سے تخلیق شدہ نرم و نازک ہاتھوں کی نسبت فولاد سے جوڑ کر اپنی دانست میں خود کو ناقابلِ تسخیر اور مافوق الفطرت مخلوق سمجھنے لگتے ہیں۔ رَعْونَت، فرعونیت، خود سری، احساسِ برتری اور ہماہمی کے خمیر میں گْندھی خصلت اْن کو سچ مچ کا مرد آہن اور ناگزیر سمجھنے پر قائل کرکے دم لیتی ہے۔ وہ اپنے نقطہ نظر کو اشارۂ ابرو کے ذریعے دوسروں پر مسلط کرکے طَمانیتِ قَلب محسوس کرتے ہیں۔ وہ خود ساختہ اور تخیلاتی اوجِ ثریا کے برابر محوِ پرواز ہو کر زمین پر بسنے والی اپنی ہم نسل، مخلوقِ آدم کی سوچ و فکر کا تمسخر اڑا کر اْنہیں مسخر کرنے کی مختلف بے ترتیب تدبیریں سوچتے رہتے ہیں۔ وہ ایسا کبھی تصور میں بھی نہیں سوچ سکتے کہ اْن کا وقار، شباب، دبدبہ اور شتر بے مہار کی طرح بے سمت اختیارات امرِ ربی سے کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتے ہیں۔ اْن کے عاقبت نااَندیش بہی خواں بھی اْنکے پاؤں فضا سے زمین پر نہیں دھرنے دیتے۔ اْنہیں تب پتہ چلتا ہے جب یکساں رفتار سے چلتی ہوئی وقت کی سوئیاں باہم ٹکرا کر ساکِت، غیر متحرک اور غیر متعلق ہو جاتی ہیں۔ جب نَہ پائے رَفتَن، نَہ جائے ماندَن کے مصداق اْنہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا اور پاؤں دلدل میں دھنسے دکھائی دیتے ہیں تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں اْن کے ابن الوقت بہی خواہ انفرادی یا اجتماعی طور پر نو دو گیارہ ہونے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے۔ وہ تنہائی و بے بسی کی عملی تصویر بنے حالات کی بے ثباتی اور اپنوں کی بے وفائی کے نوحے پڑھتے نظر آتے ہیں مگر اْس وقت تک تمام چڑیاں کھیت چگ کر اپنے گھونسلوں میں سکون سے بیٹھی ہوتی ہیں۔ یوں مردِ آہن سے مردِ بیمار بننے میں پلک جَھپَکنے کی دیر چاہیے ہوتی ہے۔ تمام تر تقدس آن واحد میں روسیاہی میں بدل جاتا ہے، شعلہ بیانی کی بجائے نَحِیف و نَزار آواز حلق سے بمشکل برآمد ہوتی ہے اور آہنی ہاتھ لرزنے لگتے ہیں۔ حجرِ حمر سے تعمیر شدہ اہرام مصر کے مکین خود کو خدا کہلاتے تھے۔ انکے عبرت ناک انجام کے واقعات زبان زد عام و خاص ہیں۔ آج بھی متکبر اور گھمنڈی شخص کو فرعون کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ انقلاب کے داعیوں نے عوامی عدالت لگا کر شاہِ فرانس، لوئی شانز دہم اور ملکہ، میری انتوانیت کو 1793ء میں سزائے موت سے دوچار کیا۔ زار روس کی سلطنت کا سورج پوری آب و تاب، جاہ و جلال اور طمطراق سے کم و بیش 400 برس تک چمکتا رہا اور آخر کار کمیونسٹوں کے ہاتھوں وہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ آخری زار نکولسII کو 1918ء میں قتل کر دیا گیا۔ امریکہ کی آنکھ کا تارا، رضا شاہ پہلوی، شہنشاہِ ایران، امام خمینی کے ایرانی انقلاب کے سامنے نہ ٹھہر سکا اور مصر میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوا۔ مذکورہ بالا اْن چند طاقتور ترین بادشاہوں کا کیا ہی برا، عبرت ناک اور سبق آموز انجام ہوا!!! پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت اَظہر مِنَ الشمس ہوتی ہے کہ ہمارے ہر حکمران نے بھی طویل عرصہ تک برسرِ اقتدار رہنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ سیاسی جوڑ توڑ میں گہری دلچسپی لینے والے ملک غلام محمد، گورنر جنرل پاکستان ایک شاطر سیاست دان تھے اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے شدید خواہشمند بھی تھے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ کو وزارتِ عظمیٰ سے چلتا کیا اور اپنے اختیارات پر زد پڑتی دیکھ کر اکتوبر 1954ء میں دستوریہ کو بھی برطرف کر دیا۔ مولوی تمیز الدین کیس کو انہی کے طفیل ملک گیر شہرت ملی۔ شدید ترین علالت کے باوجود اقتدار سے ان کا من تو نہیں بھر رہا تھا مگر جانا بھی ٹھہر گیا تھا۔
ملک غلام محمد کے مستعفی ہونے کے بعد قرعہ فال سکندر مرزا کے نام نکلا۔ وہ بھی لمبے عرصے کی پلاننگ کرکے آئے تھے۔ مشہور تھا کہ وہ سیاست دانوں کو انگلیوں پر نچاتے تھے۔ ان کے نگران دور میں چوہدری محمد علی وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہوئے، حسین شہید سہروردی کو فارغ کیا گیا، آئی آئی چندریگر کی وزارتِ عظمیٰ کے دو ماہ کی قلیل مدت میں ہی پر کاٹ ڈالے۔ اپنی صدارت برقرار رکھنے کے لئے انہوں نے مارشل لاء لگا دیا۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اسی مارشل لاء نے بالآخر جمہوریت کی بساط بھی لپیٹ دی اور ان کی طویل المیعاد منصوبہ بندی کو بھی پیروں تلے روند ڈالا۔ وہ جبری طور پر برطانیہ جلا وطن کر دیے گئے اور وہیں ان کی موت واقع ہوئی۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی لمبے عرصے تک اقتدار میں رہنے کی سوچ لے کر آئے تھے۔ خان عبدالولی خان حیدرآباد ٹربیونل کی نذر ہوئے۔ باقی اپوزیشن کو بھی دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا۔ 1977ء کے انتخابات میں بھی جیت اپنے نام تو کر لی مگر دھاندلی کے الزامات پر پی این اے نے ان کے خلاف زوردار تحریک چلائی جو ان کی حکومت کے خاتمے پر متنج ہوئی۔ ان کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں موت کو گلے لگانا پڑا۔
نواز شریف بھی اپنے مذکورہ پیش روؤں کی طرح لمبی مدت کے لئے اپنی اننگ کھیلنا چاہ رہے تھے۔ وہ گرتے سنبھلتے جزوی طور پر اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔ وہ خود بھی برسرِ اقتدار رہے، چھوٹے بھائی شہباز شریف اپنی دوسری باری لے رہے ہیں اور ان کی بیٹی، مریم نواز صوبہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں۔
ماورائے آئین برسرِ اقتدار آنے والے تین حکمرانوں نے ایک طویل عرصہ اقتدار کی راہداریوں پر چلتے ہوئے گزارا مگر ان کی اقتدار کی ہوس مدھم پڑنے کی بجائے بڑھتی چلی گئی۔ سانحہء 1971ء وقوع پذیر ہونے کے باوجود آمر مطلق نے مستعفی ہونے کی بجائے نیا آئین بنا کر نئے سرے سے حکومت شروع کرنے کے عزم کا اظہار بھی کر ڈالا تھا مگر اِس لانگ ٹرم پلاننگ کے راستے میں نزاکتِ حالات اور جبرِ وقت آڑے آئے۔ موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ، حکومت، اپوزیشن اور عدلیہ کی طرف سے جو عمل اور ردعمل سامنے آ رہے ہیں، ان پر مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ جس سماج میں اصول نہ ہوں وہاں انصاف پھل پھول نہیں سکتا اور جہاں انصاف میسر نہ ہو وہاں اصول نہیں پنپ سکتے۔ کاش موجودہ سٹیک ہولڈرز ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے صرف اور صرف ملک و قوم کے لئے سوچتے!! مگر ’’طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی‘‘۔ اور ہاں! یہ بھی مقامِ افسوس ہے کہ ہمارے ہاں چوہدری محمد علی کے سوا اقتدار سے باعزت رخصتی کی سوچ کیوں پروان نہ چڑھ سکی؟؟۔
٭…٭…٭