آئینی ترامیم ڈوبتی معیشت سے اہم کیوں

قیام پاکستان سے لے کرآج تک پاکستان مسلسل مالیاتی بحران سے دوچار ہے ، جس کی وجہ ملک  میں سیاسی عدم استحکام اور انتشار زدہ سیاست ہے ، عہدِ رفتہ سے لے کر دور حاضر کے حکمرانوں نے زیادہ تر نج کاری پر اپنی توجہ مرکوز رکھی لیکن کسی بھی قسم کی کوئی نئی صنعت نہیں لگائی ،یہی وجہ بیروزگاری ، معیشت کا زوال اور ملکی عدم استحکام کا سبب بنا ، لہذا جب تک جاری فرسودہ نظام کی اصلاح نہیں کی جاتی ، معیشت زوال پذیر رہے گی ۔
ملک میں جتنے بھی ٹیکس لگا ئیں اس سے جی ڈی پی کا تناسب گورننس کو بہتر نہیں کر سکتا اور نہ ہی ملک میں مہنگائی ختم ہو سکتی ہے ، اور نہ ہی عوامی خدمات کی فراہمی یا انسانی وسائل کو بہتر بنانے کے قابل کیا جاسکتا ہے، روزبروز معاشی اشاریے تیزی سے تہہ وبالا ہو رہے ہیں ، پالیسیوں میں بنیادی خامیوں کی وجہ سے اندرونی مالیاتی مدد حاصل نہیں ہو پاتی، لہذا مختصر مدت میں ان حالات کو سدھارنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ، معاشی ترقی میں کمی کے اثرات غریب عوام کو سہنے پڑتے ہیں، شرح سود کی قدر میں اضافہ اور ڈالر کی روپے کے مقابلے میں اُڑان عالمی منڈیوں میں پاکستان کے مالیاتی نظام پرمنفی اثرات مرتب کر رہا ہے جن کا بوجھ قرضوں،در آمدات کی قدر اور ادائیگی کی صلاحیتوں پر پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے افراط زر کے دبائو میں اضافہ ہو رہا ہے، ایسے حالات میں ملک کو ناقابل تلافی مالیاتی نقصان کے ساتھ نئے  چینلجز کا سامنا ہے ۔ 
ملک کا معاشی عدم توازن خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے ، موجودہ حکومت کے اقتصادی ماہرین نے معاشی بد حالی کو نظر انداز کر رکھا ہے ، اور ذاتی مفاد کے نت نئے طریقوں پر عمل پیرا ہے ،جس سے ملک میں بے روز گاری اور محصولات کی و صولی میں کمی واقع ہو رہی ہے، ان عوامل میں توازن بر قرار رکھنے کے لئے حکومت  بڑے قرضے لے رہی ہے ، زیادہ تر محصولات کی وصولیاں قرض کی ادائیگی میں چلی جاتی ہیں ، سیاسی بد امنی  اور عدم استحکام کی وجہ سے وسیع معاشی وسائل کے باوجود ملک کو شدید معاشی جمو د کا سامنا ہے ،حکمرانوں کواس بات کا ادراک نہیں کہ ایک غیر مستحکم سیاسی نظام ملک کے لئے بڑا خطرہ  ہے، جو ملک میں با اختیار نظم و نسق اور قانون  کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔
سیاسی مفادات پر مبنی فیصلے اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ، شرح سود میں گذشتہ کے مقابلے میں 9.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں تقریباً  170 روپے کا اضافہ ہوا، ملک کے زرمبادلہ کے زخائر میں 10.5 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے، مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد سے بڑھ کر 35 فیصد سے بھی تجاوز کر گئی ہے،ڈالر کی قدر میں روز افزوں اضافے نے گذشتہ سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ، آئی ایم ایف  پروگرام میں تاخیر اور بیرونی ذرائع سے کسی بھی شکل میں فنانسنگ حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ڈالر کی اُڑان رکنے کا نام نہیں لیتی ، اقتصادی امور کے ماہرین کے مطابق گذشتہ اتحادی حکومت نے دنیا کو پاکستان کی معاشی صورتحال کی تصویر کشی میں مبالغہ آرائی کی ، جب ملک چھ فیصد کے گراف سے ترقی کر رہا تھا ، حکومت نے دنیا کو چار فیصد بتایا، ملک کا خسارہ 12.5 ارب ڈالر تھا اسے اگلے تین ماہ میں 22.5 ڈالر ہونے کا بتایا ، جس سے عالمی سطح پر محسوس کیا گیا کہ پاکستان کا خزانہ خالی ہو جائے گا ، جس کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہوا ۔ایسے حالات میں ملک اپنی ساکھ کھو رہا ہے ،اور یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ یا تو اداروں کے سربراہ نہیں ہیں یا حکمرانوںکو اندازہ نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔
ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے ، جو کہ 50 سالوں کی بلند شرح پر پہنچ گیا ہے ، 2010 ء سے صنعتی یونٹوں کی بندش جاری ہے اس کی بڑی وجہ معاشی مشکلات ہیں اقتصادی دشواریوں کے ساتھ ساتھملک میں امن و امان کی خراب صورتحال اور توانائی کا بحران بھی کاروباری طبقے کی مشکلات ایک بڑی وجہ ہے، درآمدات کے لئے ایل سی ( لیٹر آف کریڈٹ ) کے اجراء پر پابندی سے ملک میں ایک نئے معاشی بحران نے جنم لے لیا ہے ، حکومت نے ایکسپورٹ میں کمی کی لیکن امپورٹ میں اضافے سے تجارتی حجم غیر متوازن ہو گیا جس کا براہ راست اثر معیشت پر ہوا ۔
 حکمرانوں کو ملک کی ایس ابتر معاشی صورتحال کے ہوتے ہوئے آئینی ترامیم ڈوبتی معیشت سے سے اہم کیوں لگتی ہے ، جبکہ کشمیر اور فلسطین میں اسرائیل اور بھارت کے مظالم کی صورت میں عالمی سطح پر جوہری طاقت رکھنے والے ملک پاکستان کے لئے قائدانہ کرادار ادا کرنے کا ایک بہتر موقع ہے ، لیکن  سیاست داں اورحکمران اپنے ذاتی مفادات کو حاصل کرنے آئین کا حلیہ بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں ، جتنی کوششیں اور تگ ودو آئینی ترامیم کو منظور کرانے کے لئے کی جارہی ہیں اگر اتنی ہی دیانت داری سے ملک میں نئی صنعتیں لگا کر ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا جا سکتا تھا ، اوربے روزگاری کو ختم کرنے میں مدد گار بھی ثابت ہوتا ۔
سردست مجوزہ آئینی ترامیم پر کی گئی کوششوں پر جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے من و عن قبول کرنے سے انکار کرکے حکومت کے لئے سبکی کا سماں پیدا کر کے سبکی محسوس کر ادی، مولانا فضل الرحمن نے کسی بھی قسم کی کوئی پیشکش قبول کرنے کے بجائے اپنی روائتی سیاست کو ترجیح دی ، آئینی ترامیم کی منظوری کے لئے حکومت کی طرف سے اعتماد سازی کی جتنی کوششیں ہوئیں ، ایسی ہی کوششیں اگر صنعتکاروں کو اعتماد میں لا کر گھر یلو اور چھوٹے درجے کی بند صنعتیں فعال کی جاسکتی تھیں ،جس سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوتا اور ملکی معیشت میں استحکام پیدا ہوتا ۔
٭…٭…٭


     
  

ای پیپر دی نیشن