قصہ کالی بھیڑوں،بھونڈ اور کالے لفافے کا

Sep 22, 2024

ناصر نقوی۔۔۔ جمع تفریق

کہتے ہیں تعلیم آ دمی کو انسان بنا کر ترقی کا راستہ دکھاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ،، تربیت،، ساری کارروائی میں وسیلہ بنتی ہے اس راز کو جانتے ہوئے بھی ہم اچھی مہنگی اعلی تعلیم کے چکر میں گھن چکر بن چکے ہیں لہذا تربیت نظر انداز ہو رہی ہے اور نتائج اعلی تعلیم کے باوجود نقصان دہ نکل رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قومی اداروں کے استحکام کے لیے بلا امتیاز اصلاحات برسوں سے زیر بحث ہیں صدر ایوب خان اور مولوی تمیز الدین سے یہ نظام عدل تنقید کی زد میں ہے پھر ہر دور میں کچھ نہ کچھ ایسا کیا گیا کہ تمام نظام ہی نشان زدہ ہو گیا۔ 
دور آ مرانہ ہو یا کہ جمہوری، اصلاحات اجتماعی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ وقت اور حالات کے مطابق زور زبردستی سے ہوتی رہیں لیکن اٹھارہویں ترمیم پر حکومت اور رضا ربانی کی ورکنگ ایسی تھی جس میں مذاکرات اور مشاورت سے متفقہ ترمیم کی گئی قانون ساز اسمبلی صوبائی ہو کہ وفاقی، اس کی اصل ذمہ داری بھی یہی ہے پھر بھی دنیا نے دیکھا کہ افتخار محمد چودھری نے زبردستی 19ویں ترمیم کرا کے نظام عدل پر نئے الزامات کے دروازے کھول دیئے نتیجتاً پارلیمنٹ منہ دیکھتی رہی اور نظریہ ضرورت مضبوط ہو گیا ماضی کے تمام چیف جسٹس صاحبان نے مختلف مقدمات کے فیصلوں اور ،،سو موٹو،، کی طاقت سے ایسا ایسا کرشمہ دکھایا کہ وزراء اور سابق وزرائے اعظم بھی ان کے شکنجے سے نہیں بچ سکے، ہر الیکشن سے پہلے اصلاحات کی باتیں ہو ئیں الیکشن کمیشن کی آزادی اور اختیارات پر بھی بحث مباحثہ ہوا لیکن ماضی کی طرح الیکشن 2024ء بھی متنازعہ بلکہ متنازعہ ترین قرار پایا جس میں سوشل میڈیا نے رنگ چوکھا کر دیا حالانکہ یہ الیکشن بھی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان اتفاق رائے سے حاصل نہیں کر سکے ، اسے بھی ممکن قاضی فائز عیسی نے بنایا اور مجبورا سابق صدر عارف علوی اور الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑا بلکہ الیکشن کی تاریخ دینی پڑی ، جسٹس قاضی نے اپنے اختیارات بھی کم کر کے تین رکنی’’ جوڈیشل کمیٹی‘‘ کے حوالے کر دئیے، لیکن جوں جوں وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں میں آ گے بڑھے توں تو ں ساتھیوں میں ایک ’’سرد جنگ،، شروع ہو گئی ردعمل میں’’ کالی بھیڑوں،، کا نعرہ لگا جس کے جواب میں وضاحت ایک وضاحت آئی کہ ہم کالی بھیڑیں نہیں بلکہ ،،کالے بھونڈ،، ہیں۔ 
یقینا عزت مآب کی بات کو ،،ہم اور آ پ،، کسی طرح رد نہیں کر سکتے لیکن جب بات آ ئینی اصلاحات تک پہنچی تو تمام تر دعوؤں کی نفی ہو گئی۔ حکومت کو حکمت عملی تبدیل کرنا پڑی کیونکہ جے۔ یو۔ آ ئی کے سینیٹر کامران مرتضی نے اپنے قائد کو اطلاع دی کہ رات کے اندھیرے میں ملنے والا ،،کالا لفافہ،، عمران خان کی کابینہ میٹنگ لفافے کی طرح گلے کی ہڈی بن سکتا ہے۔ جب تک تمام ترامیم کا جائزہ نہیں لیا جا سکے گا ہم حمایت نہیں کریں گے۔ یوں مولانا نے اعلان فرما دیا کہ جلدی کس بات کی ہے؟ ہم ترمیمی سیاسی عمل میں بھرپور کردار ادا کریں گے لیکن ذرا حوصلہ رکھیں، پھر اسلام آ باد کا سجا سجایا ’’پارلیمانی میلہ‘‘ اجڑ گیا مولانا کے در دولت کے پھیرے بھی رائیگاں ہوگئے بلکہ سینٹ ،قومی اسمبلی کے اجلاس ملتوی ہو گئے۔ حکومتی حکمت عملی کا سارا جادو’’ کالے لفافے‘‘ میں تھا جسے کامران مرتضی نے،، ڈیفیوز،، کر دیا۔ اس کارروائی پر نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن دونوں نے اسلام آ باد بھی چھوڑ دیا۔ اب نواز شریف لاہور میں بیٹھ کر،، تانے بانے،، ملانے کی کوشش کرینگے جبکہ حضرت مولانا فضل الرحمن ملتان میں 10 روزہ چلہ کاٹ کر کالی بھیڑوں ،بھونڈ اور کالے لفافے کا اثر ناکارہ بنائیں گے۔ لیکن ذرائع کا دعوی ہے کہ صدر زرداری کا’’مفاہمتی جادو‘‘ چل گیا ہے۔ 
بلاول بھٹو زرداری اور کامران مرتضی نے اس ’’آئینی پیکج‘‘ کو تین مراحل میں لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پہلے مرحلے میں جوڈیشل ترامیم دوسرے میں ملٹری کورٹس، انسانی حقوق ،لاپتہ ا فراد کا مسئلہ اور تیسرے مرحلے میں 63۔ ایپر تمام سیاسی جماعتوں سے اتفاق رائے حاصل کی جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن آئینی اصلاحات کا شور شرابہ اور ہنگامہ جاری ہے اس کی یادداشت پر،، میثاق جمہوریت،، کے حوالے سے 2006ء میں مولانا فضل الرحمن اور عمران خان دستخط کر چکے ہیں۔
 ’’لمحہ موجود‘‘ میں آ ئینی ترامیم کے حوالے سے یکدم سناٹا ہے لیکن پیپلز پارٹی اور جے۔ یو۔ ائی کے رابطے موجود ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق مولانا اپنی مکمل سیاسی بصیرت اور تربیت کے حوالے سے اپنے چلے میں متعدد موکلوں کے ساتھ ہیں جو پیپلز پارٹی کی مشاورت کے مطابق آ ئینی’’ڈرافٹ‘‘ تیار کر رہے ہیں۔ یقینا ایسا اسلام آباد کی گہما گہمی اور میڈیا کی یلغار کے باعث ممکن نہیں تھا تاہم مختلف لوگوں نے عدالت سے ریلیف کے لیے بھی رابطے کیے اور پھر ان کی درخواستیں مسترد ہو گئیں۔ حکومتی آئینی پیکج درست ہے کہ نہیں،قومی مفاد میں اس کا فیصلہ’’پارلیمنٹ‘‘کے اندر ہونا چاہیے۔ حکومتی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پالیسی کے مطابق نئی قانون سازی اور ترامیم کر سکے لیکن ایسا ڈنڈے کے زور پر ہرگز نہیں ہو سکتا۔ 
ماضی میں اشارے اشاروں میں ہی ایسا ہو جاتا تھا اسی لئے ترامیم آ نے سے پہلے سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل جمہوری پارلیمانی دور میں بیجا ہے۔ پارلیمنٹ قانون سازی کی ذمہ دار، اپوزیشن اور ممبران اس پر بحث، اعتراض اور مخالفت کے ساتھ تجاویز ، جمہوری فرض ہے پھر بھی اگر کسی کا دعوی ہے کہ وہ مسودہ قانون پارلیمنٹ میں پیش ہونے نہیں دے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ 
مولانا اپنی سیاسی تربیت کے ساتھ ایک کامیاب سیاسی اننگ کھیل رہے ہیں۔ ان کا انداز عین جمہوری ہے اور باقی اپوزیشن مسودہ کو مسترد کرنا چاہے تو کر دے لیکن بات تو’’میجک نمبر‘‘ سے ہی بنے گی سپریم کورٹ پارلیمان کی حقیقی بالادستی تسلیم کر چکی ہے قانون سازی اور ترامیم اکثریتی رائے بلکہ اس وقت دو تہائی اکثریت سے ہی ہوں گی۔ اس کے لیے سیاسی عمل، مذاکرات، بات چیت جاری ہے اور پارلیمنٹ اس وقت مکمل طور پر جا گ چکی ہے۔ نظام عدل پارلیمان کے تابع ہے کوئی طالع آ زما رکاوٹ بنے گا تو یہ 24 کروڑ پاکستانیوں کی حق تلفی ثابت ہوگی۔ اس انداز سے انتشار باعث نقصان ہوگا۔ جمہوری اور پارلیمانی نظام کا حسن یہی ہے کہ تمام تر بحث و تکرار پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے کی جائے اعتراضات پر تجاویز دے کر ترامیم یا قانون کو مربوط بنایا جائے۔ اگر اس حقیقی روایت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر کالی بھیڑیں ،بھونڈ خود بخود اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے بلکہ کسی حکومت کو ’’کالے لفافے،، بھی کالی رات کو پہنچانے نہیں پڑیں گے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہماری تربیت میں کمی رہ گئی اور ہمارے پارلیمان ممبران اس تربیت کو حاصل نہیں کر سکے جو پارلیمانی روایات کے مطابق ہونی چاہئیں۔ اس لیے ہم جذباتی زیادہ ہیں حالانکہ سیاست رواداری، برداشت سکھاتی ہے لیکن ہم اشارے پر ہاتھ کھڑے کرنے کے عادی بن چکے ہیں اس لیے’’ڈیوٹی فل‘‘ سیاست دان فیصل ووڈا یہ کہنے پر مجبور دکھائی دیے کہ حکومت ناکام اور بزدل ہے۔
 اسی طرح ریٹنگ کے پجاری ڈیوٹی فل صحافیوں نے بھی،، چائے کی پیالی،، میں طوفان برپا کر دیا حقیقت یہی ہے کہ آ ئینی ترامیم اسی پارلیمنٹ میں نہ صرف آ ئیں گی بلکہ منظور بھی ہوں گی ،مرحلہ وار۔۔یہی نئی حکومتی حکمت عملی ہے۔ اب اس کے لیے تمام پارلیمنٹیرین کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ کے اندر بحث و مباحثہ، تنقید و تعریف سب کچھ کریں،گونگے بہرے نہ بنے رہیں ،انھیں آ ئین اور قانون کی حدود میں رہتے ھوئے بولنا ھوگا، تب ہی کوئی مثبت راستہ نکل سکے گا ورنہ پھر’’ ماروائے آئین،، کچھ بھی ہو سکتا ہے جو مملکت بلکہ جمہوریت کے لیے بھی زہر قاتل ہوگا۔

مزیدخبریں