اتوار‘17 ربیع الاول 1446ھ ‘ 22 ستمبر 2024ء

عوام بجلی کے نرخوں کے حوالے سے جلد خوشخبری سنیں گے‘ اویس لغاری
خدا کرے‘ ایسا جلد ہی ہو‘ ورنہ اس خوشخبری کے آتے آتے کہیں عوام کا صبر ہی جواب نہ دے جائے۔ کچھ روز بیشتر ایک بجلی بنانے والے نجی بجلی گھر نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ اپنے ریٹ کم کر نے کو تیار ہے‘ اب گزشتہ روز ایک اور آء پیز نے بھی کہا ہے کہ وہ بھی بجلی کے نرخ کم کرنے پر تیار ہے۔ مگر ان میں سے اکثریت کا مطالبہ یہ ہے کہ پہلے حکومت اپنے زیرسایہ چلنے والے سرکاری آئی پیز کی طرف سے بھی نرخوں میں کمی لائے۔ یعنی ٹیکسوں کی بھرمار کم کرے۔ خدا کرے اب حکومت اور ان آئی پیز میں جلد ہی کوئی معاملہ طے ہو اور عوام کو بقول وزیر توانائی جلد ہی کوئی خوشخبری ملے۔ ورنہ کہیں
اے موت تو ہی آ تجھ کو کیا ہوا
ان کو تو آتے آتے بہت دیر ہوگی
والا مرحلہ نہ آجائے۔ حکومت نے ان آئی پ پیز کو ذرا آنکھیں دکھائیں تو انہوں نے عالمی ثالثی عدالت میں معاملے لے جانے کی دھمکی دی ہے۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام نجی بجلی گھر ہماری محب وطن پاکستانی اشرافیہ کی ہیں جو اپنے منافع کی خاطر ملک کو عالمی عدالت میں گھسیٹنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اس سے انکی حب الوطنی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور جن حکمرانوں نے وزراء نے یہ عوام کا خون نچوڑنے والے معاہدوں پر دستخط کئے‘ ان کیلئے بھی یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ انہوں نے معاہدے کرتے وقت نہیں دیکھا۔ یہ شرائط کیا ہیں جن کے تحت وہ یہ معاہدے کر رہے ہیں۔ یہ تو سراسر عوام کا خون نچوڑنے والے معاہدے ہیں۔ جو 14 روپے فی یونٹ پڑنے والی بجلی 34 روپے کے حساب سے دے رہے ہیں۔ 
٭…٭…٭
روس سے سٹیل ملز کی بحالی میں مدد لی جائے
معاشی ماہرین بتاتے ہیں کہ اس وقت پاکستان پر 70 ارب ڈالر کا قرض ہے جو ہماری معیشت کی کمر توڑ رہا ہے۔ خدا جانے یہ بوجھ کب تک ہم پر پیرتسمہ پا کی طرح مسلط رہے گا۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق پاکستان سٹیل کو مسلسل خسارے کی موت مارنے کے بعد اسے کوڑیوں کے داموں فروخت کرنے کی سازش تو عرصہ سے ہو رہی ہے مگر یہ کوئی ایک عدد مل یا فیکٹری ہے تو نہیں کہ بولی لگائی اور نیلام کر دیا جائے۔ اربوں کھربوں ڈالر کا معاملہ ہے۔ اگر اس مل کو بحال کیا جائے تو ہماری معاشی حالت سدھر سکتی ہے۔ اس سٹیل مل کی حالت اور اسکے اثاثے 200 ارب ڈالر کے بتائے جاتے ہیں۔ اگر فروخت کرنا ہی ہے تو اسے پوری ایمانداری کے ساتھ بیچ کر ہم آئی ایم ایف اور دیگر ممالک کے قرضوں کے بوجھ سے نجات پا کر بھی بہت بچا سکتے ہیں۔ مگر قومی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس عظیم الشان منافع بخش ملز کو فروخت کرنے کے بجائے اگر روس کے تعاون سے دوبارہ فعال بنا دیں تو بہت بڑی کامیاب ہوگی۔ یہ روس کے تعاون سے مکمل ہوئی ہے‘ اس وقت روس کے نائب وزیراعظم پاکستان کے دورے پر ہیں‘ باقی معاملات میں تعاون کے سمجھوتوں کے ساتھ اگر اس سٹیل میل کی بحالی کا بھی سمجھوتہ کرلے تو کروڑوں پاکستانیوں کے دل جیت لے گی اور ملکی معیشت پر بھی ان کا احسان ہوگا۔ اقتدار آنے جانے کی چیز ہے۔ اصل بات ملک و قوم کی ہے۔ جو حکمران ان دونوں کا سوچتے ہیں‘ انہیں لوگ سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ کوئی تو پاکستان کیلئے سوچے۔ جن اداروں کا رشوت‘ سیاسی مداخلت اور سفارش نے غندہ گردی نے یونین سازی کے نام پر بیڑہ غرق کر رکھا ہے‘ انہیں ان گدھوں کے چنگل سے نکال کر انہیں دوبارہ منافع بخش اداروں میں بدل دے۔ ویسے بھی بیمار کا علاج کیا جاتا ہے‘ اسے بچانے کی کوشش ہوتی ہے‘ مرنے کیلئے نہیں چھوڑا جاتا۔ 
٭…٭…٭
لال چوک سرینگر میں مودی کے پتلے کا چائے والا ڈھابا
مقبوضہ کشمیر میں الیکشن ڈرامے کی پہلی قسط کے دوران سرینگر کے لال چوک میں مودی کا ایک بڑا پورٹریٹ لگایا گیا ہے۔ اسکے سامنے یعنی قدموں میں چائے کا ایک مثال بھی قائم کیا گیا ہے۔ جہاں دن رات جو چاہے آکر چائے نوش کر سکتا ہے۔ اب کیا کریں‘ چائے ایک ایسا مشروف جاں ہے کہ سارے جہاں میں اسکی دھوم ہے۔ خاص طور پر سرد ممالک اور علاقوں میں تو یہ دن رات پی جاتی ہے۔ اب کشمیر میں تو عام چائے کے علاوہ کشمیری گلابی چائے بکثرت استعمال ہوتی ہے۔ قہوے کا چلن بھی عام ہے‘ کیا معلوم نریندر مودی کے اس چائے کے ڈھابے پر یہ تینوں اقسام آنیوالوں کو پیش کی جاتی ہوں۔ویسے بھی مودی جی کو چائے کے ڈھابے پر کام کاج کے دوران خوب تجربہ ہوا ہوگا کہ گاہکوں کا دل کس طرح لبھایا جاتا ہے۔ اچھی چائے تو ویسے ہی دل و دماغ پر سرور طاری کر دیتی ہے۔ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ عرض ہے‘
چائے چیز ہی ایسی ہے نہ چھوڑی جائے
یہ میرے یار کے جیسی ہے نہ چھوڑی جائے
اگر نریندر مودی کنول کے پھول کی جگہ چائے کی پرچ پیالی کا انتخابی نشان اپناتے تو شاید انہیں بہت سے چائے پینے والوں کا ووٹ آسانی سے مل جاتا۔ ویسے یہ مودی کا تماشا کسی نے جان بوجھ کر انکی بے عزتی کیلئے تو نہیں بنایا۔ کشمیری وہاں آتے جاتے چائے بھی پیتے ہیں اور مودی سمیت بی جے پی کی خوب مٹی بھی پلید کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ چائے کا ڈھابہ بی جے پی اور مودی کے مخالف جذبات کو پھیلانے کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ یوں یہ نیکی برباد اور گناہ لازم والی بات ہو رہی ہے۔ بھارتی حکومت چاہے دودھ و شہد کی نہریں بہا دے‘ چائے کی جگہ مفت کچھ اور بھی پلا دے‘ اب کشمیری کسی بہکاوے میں آنیوالے نہیں۔ وہ کسی بھی دشمن یا اسکی جماعت کو وادی کشمیر میں گھسنے نہیں دینگے۔ مزاحمت ویسے ہی ان کشمیریوں کے خون میں رچ بس گئی ہے۔ کشمیر کے طول و عرض میں پھیلے شہداء کے قبرستان گواہ ہیں کہ کشمیری نہ تو تھکے ہیں نہ ڈرے ہیں۔ 
٭…٭…٭
دریائے سندھ میں نابینا ڈولفن کی تعداد دگنی ہو گئی۔ حکومت سندھ
یہ ایک بڑی اچھی خبر ہے کیونکہ ہمارے ہاں سوائے مہنگائی کے ہر چیز میں کمی کا رجحان عام ہے۔ ڈولفن دریائے سندھ میں قدرت کا انمول تحفہ ہے‘ یہ اندھی ہوتی ہیں‘ صدیوں پہلے ہزاروں کی تعداد میں یہ دریائے سندھ میں اٹھکیلیاں کرتی پائی جاتی تھیں‘ پھر بڑھتی انسانی آبادی نے ان کیلئے زندگی محال کر دی۔ کچھ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی دریائے سندھ میں پانی کا اتار چڑھائو جاری ہے اور ماہی گیروں نے بھی اس کا بے دریغ شکار کیا۔ 2009ء  میں تو کم ہو کر انکی تعداد 975 رہ گئی تھی۔ پھر اب 2024ء میں 2100 ہو گئی ہے۔ اس میں حکومت سندھ اور عالمی ادارہ تحفظ آبی حیات کا بڑا عمل دخل ہے۔ جنہوں نے اس قیمتی ورثے کے تحفظ کیلئے کام کیا۔ یہ دنیا کی نایاب آبی حیات میں شامل ہوتی ہے‘ اس سلسلہ میں ایک اور نام سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے یعنی مرتضیٰ بھٹو کے صاحبزادے ذوالفقار بھٹو جونیئر کا بھی ہے جو سندھ میں آبی حیات کے تحفظ خاص طور پر دریائے سندھ کی نابینا ڈولفن کی پرورش میں عالمی اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ سیاست کے گند میں پڑنے کے بجائے اس نوجوان نے جس طرح ایک الگ شعبہ چنا ہے‘ وہ قابل تعریف ہے۔ امید ہے حکومت سندھ انکی خدمات کو بھی سراہے گی۔ مگر برا ہو اس تعصب کا‘ سیاسی تنگ نظری کا کہ حکومت سندھ کی ڈولفن کے بارے میں رپورٹ جو جاری ہوئی‘ اس میں ان کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ اچھا ہوتا اگر مرتضیٰ کا نام نہ سہی‘ یہ تو لکھا جا سکتا تھا کہ شہید بے نظیر کا بھانجا بھی ڈولفن کے تحفظ میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مگر لگتا ہے حکومت سندھ کسی کو ناراض کرنا نہیں چاہتی۔ اس لئے صرف اپنی کارکردگی بیان کی گئی ہے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن