آئینی اختیارات کی کشمکش ادارہ جاتی قیادتوں کی بصیرت کا امتحان

سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی جانب سے اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو مراسلہ بھجوائے جانے کے بعد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے گزشتہ روز نئی پارٹی پوزیشن جاری کر دی جس میں تحریک انصاف کا وجود ختم کر دیا گیا ہے اور پہلی پارٹی پوزیشن بحال کرتے ہوئے آزاد حیثیت میں منتخب ہونیوالے تمام 80 ارکان کو سنی اتحاد کونسل کا رکن ظاہر کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں 39 آزاد ارکان کو تحریک انصاف کا رکن اور 41 ارکان کو آزاد ڈکلیئر کیا گیا تھا جبکہ اب ترمیمی الیکشن ایکٹ کی بنیاد پر تحریک انصاف کے رکن ظاہر کئے گئے 39 ارکان کو بھی 41 آزاد ارکان کے ساتھ سنی اتحاد کونسل کا رکن ظاہر کردیا گیا ہے۔ ان تمام 80 آزاد ارکان نے 8 فروری کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد کسی پارٹی میں شمولیت کا آپشن استعمال کرتے ہوئے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرلی تھی جنہیں قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں سنی اتحاد کونسل کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ بنا دیا گیا تاہم بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو الاٹ کرنے سے متعلق دائر کردہ درخواست کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرنے والے ارکان کو بھی پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی میں شامل کرنے کے احکام صادر کر دیئے۔ ان احکام پر جزوی عملدرآمد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے ان 39 ارکان کو پی ٹی آئی کا رکن ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا جنہوں نے اس سلسلہ میں پی ٹی آئی سیکرٹریٹ سے حاصل کردہ پی ٹی آئی کا رکنیت سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا جبکہ باقی 41 ارکان پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے بجائے آزاد رکن کی حیثیت سے الاٹ شدہ مخصوص نشستوں پر بیٹھے رہے۔ 
چونکہ سپریم کورٹ کی فل کورٹ میں شامل آٹھ فاضل ججوں نے مخصوص نشستوں کے کیس میں ابھی تک اپنا مفصل فیصلہ صادر نہیں کیا اس لئے اس فیصلے پر نظرثانی کیلئے الیکشن کمیشن اور وفاق پاکستان کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت بھی نہیں ہو پائی اور اسی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر مکمل عملدرآمد ابھی تک موخر کیا ہوا ہے جبکہ گزشتہ روز سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کے الیکشن کمیشن کو بھجوائے مراسلوں کے باعث نئی صورتحال پیدا ہو گئی کیونکہ ان مراسلوں میں پارلیمنٹ کے منظور کردہ ترمیمی الیکشن ایکٹ کا سہارا لے کر الیکشن کمیشن سے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دوبارہ ان جماعتوں کو الاٹ کرنے کا تقاضا کیا گیا جنہیں سپریم کورٹ کے فیصلہ سے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ نشستیں الاٹ کی گئی تھیں۔ اب سپیکر قومی اسمبلی کے اس مراسلہ کی بنیاد پر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ الیکشن کمیشن کی کسی کارروائی سے بھی پہلے پی ٹی آئی کو الاٹ ہونیوالی 39 نشستیں بھی آزاد ارکان کی نشستیں ڈکلیئر کردی ہیں‘ نتیجتاً قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا وجود ہی ختم ہو گیا ہے۔ اس سے ایک تو ملک میں سیاسی عدم استحکام اور انتشار کی فضا کو تقویت ملے گی اور منافرتوں سے لبریز محاذآرائی میں مزید اضافہ ہوگا جبکہ اب عدلیہ‘ انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے مابین اختیارات کی جنگ میں بھی شدت پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اس باہمی ٹکرائو کا ممکنہ نقصان بھی سسٹم کو ہی برداشت کرنا پڑیگا جبکہ ہماری ان اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے ہمارا ازلی دشمن بھارت اور ملک کے دوسرے اندرونی و بیرونی بدخواہ پہلے ہی تاک میں بیٹھے ہیں۔ اسی طرح ملک میں سیاسی عدم استحکام اور انتشار بڑھے گا تو ماضی کی طرح جمہوریت کے پھر ڈی ریل ہونے کے خطرات بھی ابھر سکتے ہیں۔ 
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دانستہ طور پر مخصوص ایجنڈے کے تحت پروان چڑھائی جانیوالی منافرت کی سیاست نے باہم دست و گربیاں سیاست دانوں کو ہی بے توقیر نہیں کیا بلکہ منافرت کی اس سیاست کے منفی اثرات ریاستی انتظامی اداروں کے اندر تک بھی جا گھسے ہیں اور اس صورتحال میں اداروں کے مابین اختیارات کی جنگ کا ممکنہ طور پر آغاز ہوگا تو مہذب انسانی معاشرے والے تصورات بھی ماند پڑنا شروع ہو جائیں گے‘ نتیجتاً ا’’جس کی لاٹھی اسکی بھینس‘‘ والے معاشرے کا تصور ہماری ساری اقدار ملیامیٹ کر دیگا۔ 
گزشتہ روز سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج سید منصور علی شاہ نے بعض نجی کمپنیوں کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار آئینی حدود کے تابع ہے۔ فاضل جج نے یہ استفسار بھی کیا کہ مستقبل میں کوئی قانون بنے تو اس کا ماضی کے اقدامات پر اطلاق کیسے ممکن ہے۔ ان سطور میں ہم اسی فکرمندی کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ریاستی انتظامی اداروں کو اپنی آاپنی متعینہ آئینی حدود کے اندر ہی فرائض منصبی ادا کرنے چاہئیں اور ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ ماضی میں ایسی مہم جوئیوں کا انجام ہم ماورائے آئین اقدامات کی صورت میں بھگت چکے ہیں اس لئے ہمیں ماضی کے تلخ تجربات سے اب تو سبق حاصل کرلینا چاہیے۔ آئین میں تو بلا شک وشبہ ہر ریاستی انتظامی ادارے کے اختیارات اور دائرہ کار متعین ہے اس لئے اداروں کے مابین اختیارات کی کشمکش یا کوئی تنازعہ پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے۔ اسکے برعکس افسوسناک صورتحال یہ پیدا ہو رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ایجنڈوں کی قائم کردہ منافرت کی فضا ہمارے آئینی ریاستی انتظامی اداروں میں بھی اپنا اثر و نفوذ بڑھا رہی ہے چنانچہ ان اداروں کے اقدامات اور فیصلوں میں بھی اپنے اپنے ممدوحین کے سیاسی ایجنڈے کی جھلک بھی واضح طور پر نظر آنے لگی ہے۔ ایسی غیریقینی اور قیاس کی فضا لازمی طور پر ملک کی معیشت و معاشرت کو بھی متاثر کرتی ہے اور سیاسی اقتصادی استحکام کی منزل بھی راستے سے ہٹتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس فضا میں عوام آج اپنے مستقبل کے علاوہ سسٹم اور ملک کے مستقبل سے بھی مایوس ہوتے نظر آتے ہیں جنہیں روٹی روزگار اور روزافزوں مہنگائی کے مسائل نے پہلے ہی سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ 
یہ حقیقت ہے کہ کوئی معاشرہ آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف و میرٹ کی عملداری کی بنیاد پر ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ اگر آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری قائم کرنے کے ذمہ دار ادارے ہی باہم دست و گریباں نظر آئیں گے اور منافرت کی سیاست میں ملکی اور قومی مفادات کی بھی پرواہ نہیں کی جائیگی تو یہاں مہذب معاشرے والی اقدار کہاں پنپ پائیں گی۔ اس حوالے سے یہ لمحہ ہماری قومی سیاسی‘ دینی اور ادارہ جاتی قیادتوں سے سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہے۔ آج ہمیں بطور معاشرہ اور بطور ترقی پذیر ملک جن اندرونی و بیرونی گھمبیر چیلنجوں کا سامنا ہے‘ ان سے عہدہ برا ہونے کیلئے تو ادارہ جاتی اور قومی سیاسی قیادتوں کی سطح پر معاملہ فہمی کی زیادہ ضرورت ہے چہ جائیکہ باہمی ٹکرائو کا راستہ اختیار کرکے ملک کی معیشت و معاشرت کو ترقی معکوس کی جانب دھکیل دیا جائے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیجئے اور گھات میں بیٹھے ملک کے بدخواہوں کو ملک کی ترقی و سلامتی کیخلاف انکے سازشی منصوبوں کی تکمیل کا موقع مت فراہم کیجئے ورنہ ہمارے پاس سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں بچے گا۔

ای پیپر دی نیشن