سیاسی تصادم کے اس موسم میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں جو خطاب کیا ہے اسے غیر ملکی دانشور اور میڈیا بھی متوازن اوردانشمندانہ قرار دا رہے ہیں۔ انہوں نے تحریک انصاف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو تصادم کی بجائے مفاہمت اور تعاون کی حکمت عملی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کی بالادستی یقینی بنائے بغیر ملکی نظام کام نہیں کرسکتا۔ اس بات میں کسی شک و شعبے کی گنجائش نہیں کہ جس جانب چئیر مین بلاول بھٹو نے اشارہ کیا ہے یہی واحد حل ہے جس پر چل کر ہم سیاسی استحکام حاصل کر سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں جو باتیں کیں ہیں ان میں ایک طر?ف ان کی سیاسی بصیرت نظر آتی ہے تو دوسری جانب قومی درمندی کاا ظہار ہے جس میں کہا جا رہا ہے قومی سیاست کو تناعات اور ذاتیات سے ماورا کئے بنا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عدالتی اصلاحات کی جو بات کی ہے یہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دیرینہ موقف اور مطالبہ ہے، عدالتی نظام درست کرنے کیلئے آئینی عدالت ضروری ہے۔ چیئرمین نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے، آئینی عدالت کا مینڈیٹ آئینی معاملات کی تشریح ہوگا، اٹھارویں ترامیم کے ذریعے ججوں کی تعیناتی کا نظام وضع کیا گیا، مجھے شہید بھٹو کے کیس میں انصاف کے لیے 50 سال لگے، اسی طرح چوری، قتل کے مقدمے میں کیا لوگوں کو 50،50 سال کا انتظار کرنا پڑے گا۔‘
افتخار چوہدری نے جو بنیاد ڈالی اسے کبھی ثاقب نے تو کبھی گلزار نے آگے بڑھایا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ افتخار چوہدری کے بعد یہ روایت بن گئی ہے کہ آپ کی رشتہ داری ہے تو آپ جج بنیں گے ورنہ آپ جانے اور عدلیہ جانے، ججز کی تقرری کے عمل میں شفافیت بینظیر بھٹو کا مطالبہ تھا۔چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ کہا گیا کہ ججز کی تقرری چیف جسٹس کی مرضی سے ہوگی، ججز کا کام ڈیم بنانا نہیں، کراچی کو پرانا بنانا ہے یا نیا بنانا نہیں، عدالتوں میں اتنے سارے کیسز پینڈنگ ہیں، ججز کی تعیناتی کے نظام کو درست کرنا ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو سمجھایا تھا کہ 58 ٹوبی کا غلط استعمال ہوگا اور پھر وہ خود اس کا شکار ہوئے، جب میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے تو افتخار چوہدری مشرف کا چیف جسٹس تھا، محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اس وقت کہا تھا کہ ملک میں آئینی عدالتیں ہونی چاہئیں۔انھوں نے اپنی والدہ بینظیر بھٹو شہید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’محترمہ کہتی تھیں کہ جن ججز نے سیاست کرنی ہے وہ اپنی پارٹی بنالیں۔ بینظیر بھٹو نے اس وقت کہا تھا مک میں آئینی عدالتیں ہونی چاہییں۔‘بلاول بھٹو نے کہا کہ عدالت سے سیاست کی امید رکھیں گے تو جمہوریت اور عوام کو نقصان ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت وعدے کے مطابق ترمیم کرنے تک پیچھے نہیں ہٹوں گا، بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ انصاف کی فراہمی میں کتنی مشکلات ہیں، کسی شخصیت کے بجائے عوام کے حق میں نعرہ لگایا جائے، چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم ہر فرنٹ پر لڑیں گے، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ بار، پارلیمان سمیت سڑکوں پر لڑنا پڑا تو لڑیں گے، چارٹر آف ڈیموکریسی میں کئے وعدے کو پورا کریں گے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 50 فیصد کیس آئینی ہوتے ہیں، سپریم کورٹ میں 50 فیصد کیسز کو 90 فیصد وقت ملتا ہے، حکومت اور اتحادیوں سے مشورہ کر کے ایسی عدالت بنائیں جہاں ڈیم نہ بنائے جائیں یا ٹماٹر کی قیمتیں نہ طے ہوں۔
اس وقت ملکی عدالتوں میں کیسوں کی تعداد عوام کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے اور اس سے بھی افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان مقدامات کے فیصلے برسوں میں بھی نہیں ہوتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 31دسمبر 2023ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 56،155، شریعت کورٹ میں 85، لاہور ہائیکورٹ میں 1،93،674، پشاور ہائیکورٹ میں 42،409، سندھ ہائیکورٹ میں 83،941، بلوچستان ہائیکورٹ میں 5،012، اسلام آباد ہائیکورٹ میں 17، 298 مقدمات زیر التواء ہیں۔ اس طرح پاکستان کی تمام ہائی کورٹس میں زیر التواء مقدمات کی کل تعداد 3،42،334کی قسمت کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔بعینہ جب ہم صوبوں کی ضلعی عدالتوں کی بات کرتے ہیں تو پنجاب میں 13،86،615، سندھ میں 1،31،923،خیبر پختونخوا میں 2،73،762، بلوچستان میں 17،818 اور اسلام آباد میں 51،694 مقدمات زیر التواء ہیں۔ اس طرح پاکستان کی تمام ضلعی عدالتوں میں کل 18،61،812 مقدمات زیر التوا ہیں۔
مگر دوسری جانب اس کی تصدیق اعداد و شمار سے بھی ہوتی ہے کیونکہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے 2023 کے رول آف لا انڈیکس کے مطابق پاکستانی عدلیہ 142 ممالک میں سے 130ویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کے لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر کی عدالتوں میں 20 لاکھ سے زیادہ مقدمات زیرِ التوا تھے۔
قانونی ماہرین کے مطابق سیاسی مقدمات سے زیر التواء مقدمات کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا ہے، عدلیہ کو سیاسی مقدمات سے بھی دور رہنا چاہیے۔ انصاف کی کہانی نسلوں پر محیط ہے، ایک پوری پیڑی انصاف کیلئے دربدر ہونے کے بعد فائلوں کا پلندہ اپنی نئی نسل کے حوالے کر جاتی ہے، جوڈیشل سسٹم میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔چیئر مین بلاول بھٹو کی آئنی عدالتوں کے حوالے سے تجاویز پر وکلا برادری سے لیکر عدالتی امور سے واقفیت رکھنے والے اور ملکی دانشوروں نے اسے ایک صائب مشورہ قرار دیا ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں جتنی جلد ممکن ہو سکے آئین میں تراممیم کر کے عوام کے لئے حصول انصاف میں آسانی پیدا کری چاہیے۔